نرمی سے بات کرنے کا قرآن میں کیا فائدہ بتایا گیا ہے؟

قرآنِ کریم میں نرمی سے بات کرنے کو نہایت مؤثر، اخلاقی اور اصلاحی طریقہ قرار دیا گیا ہے۔ نرمی صرف ایک خوبصورتی نہیں بلکہ ایک حکمت بھرا عمل ہے جس کے ذریعے دل جیتے جا سکتے ہیں، نفرتیں مٹ سکتی ہیں اور ہدایت کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بھی جب فرعون جیسے سرکش انسان کے پاس بھیجا، تو نرمی کے ساتھ بات کرنے کا حکم دیا۔

فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
پس تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (اللہ سے) ڈر جائے۔
(طہٰ 20)

یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ نرمی کا انداز صرف مؤمنوں کے ساتھ نہیں، بلکہ بدترین دشمن کے ساتھ بھی اپنایا جائے، تاکہ دل نرم ہوں اور ہدایت کی راہ ہموار ہو۔ یہ طریقہ صرف حکمت نہیں بلکہ اللہ کی سنت ہے جو بندوں کے اصلاحی عمل کو پروان چڑھاتی ہے۔

مزید یہ کہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی نرمی کی تعریف فرماتے ہوئے کہا

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ
یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم ہو گئے، اور اگر آپ سخت مزاج اور درشت دل ہوتے تو وہ آپ کے گرد سے منتشر ہو جاتے۔
(آل عمران159)

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ نرمی لوگوں کو قریب لاتی ہے، سختی انہیں دور کرتی ہے۔ نرمی سے بات کرنا دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا ہے، اور ایک مومن کا دل ہمیشہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ نرمی، رحم، برداشت اور شفقت سے لبریز ہو۔

لہٰذا قرآن کا پیغام بالکل واضح ہے نرمی اپناؤ، دل جیتو، اصلاح کرو، اور ہدایت کا دروازہ کھولو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

انبیاء نے کفار کے باطل عقائد کو کس انداز میں رد کیا؟انبیاء نے کفار کے باطل عقائد کو کس انداز میں رد کیا؟

قرآنِ مجید کے مطابق انبیاء علیہم السلام نے کفار کے باطل عقائد کو حکمت، دلیل اور واضح مثالوں کے ساتھ رد کیا۔ انہوں نے محض جذباتی یا زبانی مخالفت نہیں