قرآنِ مجید کے مطابق نبی ﷺ کی مکی زندگی کا بنیادی موضوع توحید تھا یعنی صرف اللہ کی عبادت کرنا، شرک سے بچنا، اور تمام باطل معبودوں کا انکار۔ مکہ میں آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کا پیغام دیا، اس کے بعد ہی اخلاقی اصلاح، آخرت کی جزا و سزا، اور نبوت کی سچائی کی طرف بلایا۔ آپ کی دعوت کا مرکز یہی تھا کہ رب صرف ایک ہے، وہی خالق و مالک ہے، اور صرف اسی کی بندگی انسان کا اصل مقصد ہے۔
قُلْ إِنَّمَآ أَعِظُكُم بِوَٰحِدَةٍ أَن تَقُومُوا۟ لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَٰدَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا۟ ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌۭ لَّكُم بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍۢ شَدِيدٍۢ
کہہ دو میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں، کہ تم اللہ کے لیے دو دو اور اکیلے اکیلے اٹھ کھڑے ہو، پھر غور و فکر کرو! تمہارا ساتھی (محمد ﷺ) کسی جنون میں مبتلا نہیں، وہ تو تمہیں ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہے۔
(سبأ 46)
یہ آیت نبی ﷺ کی مکی دعوت کا لبِ لباب بیان کرتی ہے اللہ کے لیے اٹھنا، اس کی بندگی میں اخلاص، اور شعوری غور و فکر کے ذریعے شرک اور باطل نظریات سے نجات۔ نبی ﷺ نے مکہ میں سیاسی یا معاشرتی اصلاحات کی بنیاد عقیدہ پر رکھی، کیونکہ جب تک انسان کا تصورِ معبود درست نہ ہو، کوئی اصلاح پائیدار نہیں ہو سکتی۔
آپ ﷺ کی ابتدائی مکی دعوت قرآن کی ان آیات پر مشتمل تھی جو دلوں میں اللہ کا خوف، آخرت کا تصور، اور توحید کی عظمت بٹھاتی تھیں۔ بت پرستی، نسلی فخر، جاہ و منصب کی برتری، اور باطل روایات کو اسی بنیاد پر چیلنج کیا گیا۔
نبی ﷺ کی مکی زندگی کی دعوت کا بنیادی موضوع توحید خالص تھا، کیونکہ یہی ہر نبی کی دعوت کی بنیاد اور دین کی اصل روح ہے۔ آپ ﷺ نے ظلم، شرک، اور جاہلیت کے خلاف جدوجہد تو کی، لیکن اس کی بنیاد انسان کے دل میں اللہ کی بڑائی، بندگی، اور آخرت کے حساب کے عقیدے پر رکھی۔ یہی عقیدہ بعد میں پورے دینِ اسلام کے مکمل نظام کی بنیاد بنا۔