جیسے یہ اصطلاح عارف باللہ ہے اسی طرح سید السالکین، قطب الاقطاب، سلطان العاشقین وغیرہ جیسے صوفیانہ القابات کی فہرست خاصی وسیع ہے، جن میں سے بہت سے القابات تصوف کے مخصوص درجات، روحانی منازل یا عرفانی صفات کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ القابات نہ قرآن میں ہیں، نہ احادیث میں صحابہ یا تابعین کے لیے استعمال ہوئے، مگر صوفیہ نے انہیں روحانی مراتب کے اظہار کے لیے اختیار کیا۔ اسی طرح نبی ﷺ کو “عارف باللہ” کہنا مناسب نہیں، کیونکہ یہ لفظ اُن صوفیانہ اصطلاحات میں سے ہے جو عام طور پر جزوی معرفت، تلاش، ریاضت، اور سلوک کے بعد کسی انسان کے اللہ کی پہچان تک پہنچنے کو ظاہر کرتا ہے جبکہ نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست وحی، نبوت اور کامل علم عطا فرمایا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًۭا
“اور اللہ نے آپ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے، اور اللہ کا آپ پر بڑا فضل ہے۔”
(سورۃ النساء: 113)
نبی ﷺ اللہ کے براہِ راست تعلیم یافتہ اور اللہ کے منتخب کردہ رسول ہیں، نہ کہ مجاہدہ و سلوک سے اللہ کی معرفت حاصل کرنے والے۔
“عارف باللہ” کہنا گویا یہ باور کرانا ہے کہ نبی ﷺ اللہ کی معرفت میں رفتہ رفتہ، تجرباتی یا سلوکی طریقے سے پہنچے، جیسا کہ اولیاء یا صوفیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے، جو نبی ﷺ کے مقامِ نبوت کے خلاف ہے جو رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہے۔
نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے مبلغ، رسول اور نبی ہیں، جن پر وحی نازل ہوتی ہے۔، وہ اسکی اتباع کرنے والے ہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ
“إنِّي أعلمُكم بالله وأشدُّكم له خشيةً”
’’میں تم سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا اور اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔‘‘
(صحیح بخاری: 6101)
یہاں نبی ﷺ نے اپنے بارے میں علمِ الٰہی کا بلند ترین مقام بتایا یہ عرفان یا سلوک کے نتیجے میں نہیں، بلکہ وحی اور نبوت کے ذریعے حاصل ہوا۔
ہمیں چاہیے کہ نبی ﷺ کو اُن القابات سے یاد کریں جو قرآن و حدیث میں استعمال ہوئے ہیں: رسول، نبی، عبد وغیرہ جبکہ نبی ﷺ کو “عارف باللہ” کہنا شرعی اور توحیدی اصطلاح نہیں، یہ صوفیانہ طرز کا لفظ ہے۔ نبی ﷺ اللہ کے مخاطَب، مبلغ اور معلم ہیں، نہ کہ تلاش کرنے والے سالک۔