قرآن مجید کے مطابق نبی کریم ﷺ نے عقیدے کی اصلاح کے لیے دعوت، حکمت، دلائل، اور کردار کا ایسا جامع اسلوب اختیار کیا جو دلوں میں اتر گیا۔ آپ ﷺ نے عقیدۂ توحید کو مضبوط کرنے کے لیے سب سے پہلے دلوں کو شرک، تعصب، اور باطل رسوم و روایات سے پاک کیا، پھر رب واحد کی بندگی کو دلنشین انداز میں واضح فرمایا۔ آپ کی دعوت جذباتی نہیں بلکہ فکری، عقلی اور روحانی بنیادوں پر استوار تھی۔
ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَـٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت سے دعوت دو، اور ان سے ایسے طریقے سے بحث کرو جو بہترین ہو۔
(النحل 125)
یہ آیت نبی ﷺ کے اس اسلوب کو بیان کرتی ہے جو سختی سے پاک، علم و دلیل سے بھرپور اور فہم و حکمت پر مبنی تھا۔ آپ ﷺ نے جہالت میں ڈوبے لوگوں کو تدریج کے ساتھ سچائی کی طرف بلایا۔ نہ تو ان پر زور زبردستی کی، نہ ہی ان کے جذبات کو روند کر بات کی، بلکہ شفقت، نرمی اور حکمت کو شعار بنایا۔
نبی ﷺ نے عقیدے کی اصلاح کے لیے عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ آپ کی زندگی خود لا إله إلا الله کا عملی اظہار تھی۔ جب قریش نے آپ کو مال، حکومت اور طاقت کی پیشکش کی تو آپ نے ایک سچے موحّد کی طرح فرمایا
اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دو، تب بھی میں اس دعوت سے باز نہ آؤں گا۔
اس کے علاوہ، آپ ﷺ نے باطل عقائد کی تردید بھی کی بتوں کو توڑنے کا حکم دیا، اور عقلی دلائل سے قوم کو شرک کی گمراہی سے نکالا۔ الانعام، یٰس، الزمر، اور دیگر کئی سورتوں میں آپ کی دعوتِ توحید کو پوری قوت سے پیش کیا گیا۔
نبی ﷺ نے عقیدے کی اصلاح کے لیے حکمت، فصاحت، اخلاق، کردار، اور حق پر استقامت کو ذریعہ بنایا۔ آپ ﷺ کا انداز نہ صرف اصلاحی تھا بلکہ ایسا دل آویز تھا کہ سخت ترین دل بھی موم ہو گئے۔ یہی اسوۂ نبوی آج بھی عقیدۂ توحید کو زندہ کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔