نبی کریم ﷺ نے مکہ میں بت پرستی کے خلاف جو شدید جدوجہد کی، وہ عقیدہ توحید کی مکمل ترجمانی ہے۔ آپ ﷺ کی پوری مکی دعوت کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے، اور تمام جھوٹے معبودوں (اصنام و طاغوت) کا انکار کیا جائے۔ بتوں کی نفی صرف ظاہری نہیں تھی بلکہ دل و دماغ میں جمی شرک کی بنیادوں کو گرانا بھی مقصود تھا۔
وَقُلْ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَـٰطِلُ ۚ إِنَّ ٱلْبَـٰطِلَ كَانَ زَهُوقًۭا
اور کہہ دو حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔
(الإسراء 81)
یہ آیت اس لمحے کی ترجمانی کرتی ہے جب نبی ﷺ نے فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ میں رکھے 360 بتوں کو گرایا۔ آپ کے ہاتھ میں عصا تھا اور زبان پر یہی آیت۔ یہ صرف سیاسی فتح نہیں تھی، بلکہ عقیدہ توحید کی مکمل فتح تھی۔ ان بتوں کو مٹانے کا مطلب انسان کو غیراللہ کی بندگی سے آزاد کرنا تھا۔
آپ ﷺ نے مکہ میں 13 سال تک شدید مخالفت کے باوجود یہی دعوت دی قولوا لا إله إلا الله تفلحوا۔لا إله إلا الله کہو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو بھی وفات کے وقت یہی پیغام دیا، اور طائف، مدینہ، بازاروں، حج کے موسم، ہر جگہ صرف اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی۔
نبی ﷺ کے بتوں کے خلاف اقدامات دراصل عقیدہ توحید کی عملی اور فکری ترجمانی ہیں۔ آپ ﷺ نے واضح کر دیا کہ اسلام صرف اللہ کی بندگی کا نام ہے، اور شرک کسی بھی شکل میں ناقابلِ قبول ہے۔ بت شکلی ہوں یا نظریاتی، ان کی نفی کیے بغیر اسلام میں داخلہ ممکن نہیں۔ یہ اقدام انسان کو اندرونی اور بیرونی غلامی سے نجات دے کر صرف اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان تھا۔