نبی ﷺ نے اپنی امت کو قبروں سے مطلق کیا نصیحت فرمائی؟

اسلامی عقیدے کی روشنی میں، اہلِ قبور (فوت شدہ افراد) کا علم اور شعور محدود اور مختلف نوعیت کا ہوتا ہے، جس کی تفصیل قرآن اور سنت نے ایک خاص حد تک بیان کی ہے۔ عام انسانوں یا ولیوں کو وفات کے بعد ان کی قبروں پر آنے والوں کا مکمل علم اور ان کی باتوں کو سننے کا شعور حاصل ہے یا نہیں؟ اس پر اہلِ سنت والجماعت کے ہاں محتاط رائے ہے۔ البتہ قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ علم الغیب اور براہِ راست سننے کی صلاحیت صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔

وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَحْيَآءُ وَلَا ٱلْأَمْوَٰتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍۢ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ
زندہ اور مردہ برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور (اے نبی!) آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔
(فاطر 22)

اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مردے براہِ راست کسی کی بات سننے کی طاقت نہیں رکھتے، اور اگر کبھی اللہ تعالیٰ کسی مردے کو سناتا ہے تو یہ ایک استثنائی اور معجزاتی صورت ہوتی ہے، نہ کہ مستقل نظام۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہر ولی یا بزرگ قبر میں آکر لوگوں کی حاضری کو جانتے ہیں یا ان کی دعاؤں کو سنتے ہیں یہ قرآنی عقیدے کے خلاف ہے۔

اس جیسی روایات نبیوں اور شہداء کے خاص مقام کی نشاندہی کرتی ہیں، جنہیں اللہ زندہ رکھتا ہے اور بعض روحانی تعلقات قائم رکھتا ہے، لیکن یہ عام مسلمانوں یا اولیاء کے لیے عمومی قاعدہ نہیں بن سکتا۔

قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ
کہہ دیجیے میں اپنے لیے بھی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت بھلائی جمع کر لیتا۔
(الاعراف 188)

اہلِ قبور کو اپنی قبروں پر آنے والوں کی حاضری اور باتوں کا علم بذاتِ خود نہیں ہوتا، اور نہ وہ ہر پکار کو سنتے ہیں۔ اگر کسی خاص بندے کو اللہ چاہے تو استثنائی طور پر سنوا دے، لیکن یہ شرعی دلیل نہیں بن سکتی کہ مردے عام طور پر زائرین کی باتیں سنتے ہیں۔ لہٰذا

مردوں کو پکارنا، ان سے امید رکھنا، یا ان کے سنے جانے پر اعتماد کرنا یہ سب عقیدہ توحید کے منافی ہے۔
اللہ ہی سننے والا، جاننے والا، اور حاجت روا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا ایسا بھی ہوا کہ کچھ قومیں تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائی؟کیا ایسا بھی ہوا کہ کچھ قومیں تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائی؟

جی ہاں، تاریخ میں ایسی کئی قومیں گزری ہیں جو تمام نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان نہیں لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ان اقوام کا

تقدیر پر ایمان کیا ہے؟ کیا انسان کے پاس اختیار ہے؟تقدیر پر ایمان کیا ہے؟ کیا انسان کے پاس اختیار ہے؟

تقدیر پر ایمان اور انسان کے اختیار کا مسئلہ اسلام میں نہایت اہم، نازک اور فہم طلب ہے۔ یہ ایمان کا حصہ بھی ہے اور فکری توازن کا تقاضا بھی

کیا اللہ کی طرف سے کسی پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے؟کیا اللہ کی طرف سے کسی پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے؟

قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ یہ اصول اللہ کی رحمت، عدل اور