اسلام کا عقیدہِ توحید یہ سکھاتا ہے کہ مدد، فریاد، حاجت اور دعا صرف اللہ سے کی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جن کی اطاعت، محبت اور اتباع فرض ہے، مگر ان کی ذات کو وفات کے بعد مددگار، فریاد رس، یا ذریعہِ دعا بنانا توحید کی اصل روح کے خلاف ہے۔ فریاد کرنا عبادت ہے، اور عبادت صرف اللہ کا حق ہے۔ ہمیشہ غیر اللہ کی پکار کو توسل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا لہذا یاد رہے کہ غیر اللہ کی پکار بھی شرک ہے اور فوت شدہ کا وسیلہ بھی شرک ہے۔ جس طرح نبی ﷺ کی وفات کے بعد انہیں وسیلہ بنا کر دعا مانگنا یہ بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
قرآن مجید فرماتا ہے:
وَمَن يَدْعُ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ لَا بُرْهَـٰنَ لَهُۥ بِهِۦ فَإِنَّمَا حِسَابُهُۥ عِندَ رَبِّهِۦ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
“اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارتا ہے، جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو اس کا حساب اس کے رب کے ذمہ ہے، بے شک کافر کامیاب نہیں ہوں گے۔”
(سورۃ المؤمنون، آیت 117)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو پکارنا (چاہے وہ نبی ہو یا ولی) شرک ہے، اگر اس سے نفع یا ضرر کا عقیدہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرآن نے اطلاع دی ہے کہ:
إِنَّكَ مَيِّتٌۭ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
“یقیناً آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور وہ (تمام انسان) بھی۔”
(سورۃ الزمر، آیت 30)
یہ آیت نبی ﷺ کی وفات کو واضح کرتی ہے، اور ان کی وفات کے بعد انہیں “مددگار” یا “فریاد رس” سمجھنا یا اللہ سے دعا کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا واسطہ، وسیلہ دینا غلو اور شرک ہے۔
ہر نبی بغیر واسطے اور وسیلے کے اللہ کو پکارتا تھا فرمایا
قُلْ إِنَّمَآ أَدْعُوا۟ رَبِّى وَلَآ أُشْرِكُ بِهِۦٓ أَحَدًۭا
“کہہ دو: میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں، اور میں کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا۔”
(سورۃ الجن، آیت 20)
یہ تعلیم خود رسول اللہ ﷺ نے دی کہ صرف اللہ سے دعا اور فریاد کی جائے۔
رسول ﷺ نے فرمایا:
“إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله”
“جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے ہی مدد چاہو۔”
(سنن الترمذی، حدیث 2516 – صحیح)
یہ نبی ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ مدد صرف اللہ سے مانگی جائے، کسی اور سے نہیں، حتیٰ کہ خود نبی ﷺ سے بھی نہیں۔ اور نہ ان کے واسطے سے اللہ سے دعا کرے۔
صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل بھی یہی تھا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد کسی صحابیؓ نے آپ سے فریاد نہیں کی اور نہ آپ کو دعا کا وسیلہ بنایا۔ قحط کے موقع پرعمرؓ نے عباسؓ سے کہہ کر اللہ سے دعا کروائی، نبی ﷺ سے فریاد یا وسیلہ نہیں مانگا۔
( صحیح بخاری، حدیث 1010)
اگر نبی ﷺ کی وفات کے بعد ان کا وسیلہ مشروع ہوتا تو سب سے زیادہ اس پر عمل کرنے والے صحابہ ہوتے، مگر انہوں نے نہیں کیا۔
زندہ انسان سے دعا کی درخواست جائز ہے، کیونکہ وہ سن سکتا ہے۔ اور یہ اسباب کے تحت ہے اور وفات شدہ سے مدد مانگنا، فریاد کرنا یا انہیں مؤثر سمجھنا یہ شرک ہے۔
نبی ﷺ کی وفات کے بعد انہیں وسیلہ بنانا (یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ نبی ﷺ کے طوفیل اور وسیلے سے کی گئی یہ دعا اور اللہ کے ہاں مؤثر ہیں) بھی شرک ہے۔
نبی کریم ﷺ سے فریاد کرنا عبادت میں شرک ہے، کیونکہ دعا صرف اللہ کا حق ہے۔ اور نبی ﷺ کی وفات کے بعد انہیں بطور وسیلہ اللہ کو پیش کرنا بھی شرک ہے اور اصول مجازات کے خلاف ہے اللہ نے سورۃ یونس کی 18 نمبر آیت میں اسکو شرک قرار دیا ہے۔