میراث کی تقسیم ایک اہم شرعی معاملہ ہے جسے قرآن و حدیث،کے اصولوں کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں انصاف اور عدل کے ساتھ تقسیم کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ہر وارث کو اس کا حق مل سکے۔ فرمایا
يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ ۭ وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭوَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭ وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنْ كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَھُمْ شُرَكَاۗءُ فِي الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۙغَيْرَ مُضَاۗرٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ
اللہ تمھیں تمھاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں وصیّت فرماتاہے کہ بیٹے کے لیے دوبیٹیوں کے برابر حصّہ ہے پھر اگر صرف دو (یا دو) سے زائد بیٹیاں ہوں تو جو (ترکہ میّت نے) چھوڑا اُن کے لیے اُس کا دو تہائی ہے اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اُس کے لیے نصف (ترکہ) ہے اور (میت کے) ماں باپ دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصّہ ہے اُس میں سے جو ( میّت نے) چھوڑا اگراس ( میّت ) کی اولاد ہے اور اگر اُس کی کوئی اولاد نہیں ہے اور اُس کےماں باپ (ہی) اُس کے وارث ہوئے تو اُس کی ماں کا تیسرا حصّہ ہے پھر اگر اُس کے کئی بھائی ہیں تو اُس کی ماں کا چھٹا حصّہ ہے (یہ تقسیم ہوگی) اس وصیّت پر عمل کرنے کے بعد جو (مرنے والا) کرگیا یا (اس کے) قرض ادا کرنے کے بعد تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے تم نہیں جانتے کہ اُن میں سے کون تمھیں نفع پہنچانے کے اعتبارسےزیادہ قریب ہےیہ حصّے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں بےشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
(النساء – 11، 12)
تقسیم میراث کے چند اصول
واجب الادا قرض اور وصیت کی ادائیگی
مرنے والے کے مال میں سے سب سے پہلے اس کے قرض اور جائز وصیت پوری کی جاتی ہے۔
وصیت زیادہ سے زیادہ 1/3 مال میں ہو سکتی ہے۔
قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد باقی مال تقسیم ہوگا۔
وارثین کا تعین
وراثت ان لوگوں میں تقسیم ہوگی جو شرعی وارث ہیں
اصلی وارثین والدین، اولاد، شوہر یا بیوی۔
عصبات (قریبی مرد رشتہ دار) بھائی، چچا وغیرہ۔
ذوالارحام دور کے رشتہ دار (جب قریبی وارث نہ ہوں)۔
تقسیم کا طریقہ
مرد کا حصہ عورت کے دوگنا ہوگا (جہاں عصبات کا معاملہ ہو)۔
ہر وارث کو قرآن و سنت کے مطابق اس کا حق دیا جائے گا۔