اسلامی شریعت کے مطابق، اگر کوئی مومن کسی دوسرے مومن کو انجانے میں غلطی سے قتل کر دے تو اس پر دیت اور کفارہ لازم ہیں۔ قرآن مجید اور سنت میں اس کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے ہیں۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــــــًٔـا ۚ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا ۭ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۭ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَھْلِهٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ۡ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا
اور کسی مسلمان کا یہ کام نہیں کہ وہ (جان بوجھ کر کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرے، مگر غلطی سے ، شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتلکر دے تو (اس کے کفارہ میں) ایکمسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے اور دیت ہے جو اس کے ورثاء کو پہنچائی جائے ، الا یہ کہ وہ (دیت) معاف کردیں۔ پھر اگر ہو سے دشمن قوم دشمن قوم تمہاری اور وہ مسلمان تو آزاد کرنا ایک گردن (غلام) مسلمان اور اگر پھر اگر وہ مقتول اس قوم سے ہو جو تمہارے دشمن ہیں اور وہ خود مسلمان ہو تو (صرف) ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے (یعنی دیت نہیں ہے) اور اگر وہ مقتول اس قوم سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہے تو (بھی) دیت (واجب) ہے جو اس کے ورثاء کو پہنچائی جائے اور (کفارہ میں) ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا (بھی واجب ہے اور جس شخص کو غلام میسر نہ ہو تو مسلسل دو ماہ کے روزے (واجب) ہیں توبہ کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ، بڑی حکمت والا ہے۔
(النساء – 92)
دیت (خون بہا)
مقتول کے وارثوں کو دیت ادا کی جائے گی۔
اگر وارث دیت معاف کر دیں تو قاتل پر کوئی دیت نہیں۔
کفارہ
ایک مومن غلام آزاد کرنا۔
اگر غلام آزاد کرنا ممکن نہ ہو، تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے۔
معاہدے کی صورت
اگر مقتول ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ مسلمان معاہدے میں ہوں، تو دیت دینا اور غلام آزاد کرنا واجب ہے۔
اگر مقتول ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ جنگ ہو رہی ہو، اور وہ مومن ہو، تو صرف غلام آزاد کرنا کافی ہے۔
دیت کی مقدار اور تفصیل اسلامی تعلیمات کے مطابق طے کی جائے گی۔
یہ تمام اقدامات نہ صرف گناہ کے کفارے کے لیے ہیں بلکہ اللہ سے معافی کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں۔