قرآن مجید کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ بھی توحید تھا، اور انہوں نے فرعون کے جھوٹے ربوبیت کے دعوے کو کھلے الفاظ میں چیلنج کیا۔ فرعون نے خود کو رب اعلیٰ کہہ کر ربوبیت کا دعویٰ کیا، مگر موسیٰ علیہ السلام نے نہایت جرأت، حکمت اور واضح دلیل سے اس باطل عقیدے کا رد کیا اور اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لا شریک کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعلان کیا۔
فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰٓ أَن تَزَكَّىٰ وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ
پھر اس سے کہو کیا تو پاک ہونا چاہتا ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے رب کی طرف رہنمائی نہ دوں تاکہ تو (اس سے) ڈر جائے؟
(النازعات 18-19)
یہ آیات بتاتی ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اس کے ظلم اور گمراہی سے بچانے کے لیے ربّ کی طرف بلایا۔ یہ واضح اعلان تھا کہ رب وہ نہیں جو تخت پر بیٹھا ہے، بلکہ وہ ہے جو انسان کی فطرت کو سنوارتا ہے، ہدایت دیتا ہے، اور دلوں میں خشیت پیدا کرتا ہے۔
فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ فَأَخَذَهُ ٱللَّهُ نَكَالَ ٱلْءَاخِرَةِ وَٱلْأُولَىٰ
تو (فرعون) نے کہا ‘میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں!’
پس اللہ نے اسے آخرت اور دنیا دونوں کی عبرتناک سزا میں پکڑ لیا۔
(النازعات 24-25)
یہاں قرآن فرعون کی سرکشی اور اللہ کی گرفت دونوں کو بیان کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا پیغام فرعون کے اقتدار، غرور اور جھوٹی ربوبیت پر زبردست ضرب تھا۔ انہوں نے بتایا کہ رب وہ ہے جو پیدا کرتا ہے، رزق دیتا ہے، زندگی و موت کا مالک ہے، اور بندگی کا حق صرف اسی کو ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کا ردّ یہ پیغام تھا رب ہونے کا دعویٰ صرف ظاہری طاقت سے نہیں ہوتا بلکہ رب وہ ہے جو ہستی کی تخلیق، پرورش اور ہدایت کا مالک ہو۔ فرعون کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام کی دعوت میں توحید، فطرت، اور دلیل کی قوت تھی، اور اسی کی بنیاد پر اللہ نے حق کو غالب کیا اور باطل کو ہلاک کر دیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے باطل دعوے کو زبردست انداز میں رد کرتے ہوئے توحید کو حق، اور اس کی خودساختہ ربوبیت کو گمراہی قرار دیا۔ یہ دعوت ہمیں سکھاتی ہے کہ حق ہمیشہ دلیل، اخلاص اور صبر سے غالب آتا ہے، چاہے باطل کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔