موجودہ دور میں ہماری قوم اولیاء اللہ کا کیا معیار سمجھتی ہے؟

قرآن پاک کی روشنی میں اولیاء اللہ ایمان، تقویٰ، اخلاق، اور اللہ سے قربت کی علامت ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں ہماری قوم (بالعموم) اولیاء اللہ کے حقیقی معیار سے ہٹ چکی ہے اور کئی غلط تصورات، ثقافتی اثرات، اور بدعات نے اس مفہوم کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد ولی صرف اُسے سمجھتی ہے جس سے کوئی کرامت یا ماورائے عقل واقعہ ظاہر ہو۔ جیسے ہوا میں چلنا، وقت و مقام سے آزاد ہونا، مافوق الاسباب طور پر مدد کے لئے پہنچ جانا۔ نجس کپڑے، گلے میں منکے، بڑے بڑے تعویذ، موٹی موٹی مالائیں، بالوں کی لٹیں، ڈولے شاہ کے نام پر چھوڑی ہوئی بالوں کی چوٹی، ہاتھوں میں پتھروں والی موٹی موٹی انگھوٹھیاں۔۔۔ جی یہ پہنچے ہوئے ہیں۔ آپ جب ہوچھیں کہ اچھا فلاں ولی کیوں ہیں جی ؟ اس لئے کہ یہ کپڑے نہیں پہنتے۔۔۔۔یہ ولی کیوں ہیں؟ یہ جوتا نہیں پہنتے۔۔۔ یہ ولی کیوں ہیں؟ انکی پھونکوں میں بہت اثر ہے۔۔۔ یہ بارہ سال تک ایک ہی وضو سے صلوۃ پڑھتے تھے۔۔۔ فلاں ہوا میں اڑتے تھے۔۔۔۔فلاں نے بارہ سال کی ڈوبی ہوئی کشتی تیرائی تھی اندر سب زندہ تھے۔۔۔۔فلاں کو جب غسل دینے لگےانہوں نے انگوٹھا پکڑ کیا۔۔۔ شہباز کرے پرواز تے جانے حال دلاں دے۔۔۔ فلاں غیب جانتے ہیں۔۔۔۔ رابعہ بصری کا طواف کرنے کیلئے کعبہ خود چل کر آیا تھا۔ (الامان والحفیظ) جبکہ یہ تصور قرآن و حدیث میں اولیاء کی تعریف کا جزو نہیں۔

ایک طبقہ تو مزاروں کی رونق، نذریں، چادریں، میلوں ٹھیلوں کو ولایت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن میں ولایت کا تعلق زندہ اعمال (ایمان و تقویٰ) سے ہے، نہ کہ موت کے بعد رسمیات سے۔
بعض لوگ خاندان یا نسلیں محض نسبی نسبت کی بنا پر اولیاء تصور کی جاتی ہیں، چاہے ان کے کردار یا اعمال کچھ بھی ہوں۔اور جبکہ قرآن کی نظر میں انسان کا عمل ہی اس کی قدر کا پیمانہ ہے۔ فرمایا

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
بے شک تم میں اللہ کے نذدیک عزت والا وہ ہے جو متقی ہے۔
(الحجرات 13)

بعض لوگ مالدار، بااثر، یا مشہور افراد کو روحانی بزرگ مان لیتے ہیں، چاہے وہ دین سے دور ہوں۔ جبکہ قرآن کے اولیاء اللہ دنیاوی چمک دمک سے بے نیاز اور علم میں راسخ اور احکامات کی بجا آوری میں کمر بستہ اور اللہ کے تقویٰ میں مضبوط ہوتے ہیں۔
قرآن ہمیں صاف صاف بتاتا ہے کہ الذین آمنوا وکانوا یتقون وہ لوگ ایمان لانے والے ہوتے ہیں اور تقوی اختیار کرنے والے ہوتے ہیں۔(یونس-51)

یعنی کہ ایمان والے، متقی، عاجز، اخلاص والے، شرک و بدعت سے پاک، صرف اللہ پر بھروسا رکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہی تعریف اولیاء اللہ کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

سابقہ قومیں کیا عذاب کے وقت صرف اللہ کو پکارتیں تھیں؟سابقہ قومیں کیا عذاب کے وقت صرف اللہ کو پکارتیں تھیں؟

قرآنِ کریم میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ سابقہ قومیں عام حالات میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود بنا کر پکارتیں، لیکن جب ان پر کوئی

نبی ﷺ نے اپنی امت کو قبروں سے مطلق کیا نصیحت فرمائی؟نبی ﷺ نے اپنی امت کو قبروں سے مطلق کیا نصیحت فرمائی؟

اسلامی عقیدے کی روشنی میں، اہلِ قبور (فوت شدہ افراد) کا علم اور شعور محدود اور مختلف نوعیت کا ہوتا ہے، جس کی تفصیل قرآن اور سنت نے ایک خاص