منافقین کا ایمان کیوں ناقص ہوتا ہے؟

منافقین کا ایمان ناقص ہوتا ہے کیونکہ ان کے دل میں اخلاص (خلوص نیت) اور یقین نہیں ہوتا۔ وہ ظاہری طور پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن دل سے اللہ اور اس کے دین پر یقین نہیں رکھتے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی حقیقت کو کئی مقامات پر بیان کیا ہے اور ان کی صفات واضح کی ہیں۔

منافقین صرف زبان سے ایمان لاتے ہیں، دل سے نہیں
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَبِٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ۝
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔
( البقرہ – 8)
یعنی منافقین کا ایمان صرف زبانی دعویٰ ہے، لیکن حقیقت میں وہ مومن نہیں ہوتے۔

منافقین کا ایمان وقتی اور کمزور ہوتا ہے
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا۟۔۔۔۔۝
ایمان والے وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے۔
(الحجرات – 15)
یعنی منافقین کا ایمان کمزور ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت شک میں رہتے ہیں، جبکہ سچا مومن کبھی شک میں نہیں پڑتا۔

منافقین دنیاوی فائدے کے لیے ایمان لاتے ہیں
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ ثُمَّ كَفَرُوا۟ فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ۝
یہ اس لیے کہ وہ ایمان لائے، پھر کفر کیا، پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، تو وہ سمجھتے نہیں۔
(المنافقون – 3)
یعنی منافقین وقتی طور پر ایمان لاتے ہیں، لیکن جب دین کی آزمائش آتی ہے، تو وہ کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

منافقین دنیاوی خوف اور فائدے کے لیے ایمان ظاہر کرتے ہیں
يُرَآءُونَ ٱلنَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ إِلَّا قَلِيلًۭا ۝
وہ (منافقین) لوگوں کو دکھاوے کے لیے (صلوۃ پڑھتے ہیں) اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔
(النساء – 142)
یعنی منافقین کا ایمان صرف دکھاوے کے لیے ہوتا ہے، وہ حقیقی معنوں میں اللہ کی یاد اور عبادت نہیں کرتے۔

منافقین مشکل وقت میں اسلام چھوڑ دیتے ہیں
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَعْبُدُ ٱللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍۢ فَإِنْ أَصَابَهُۥ خَيْرٌ ٱطْمَأَنَّ بِهِۦ وَإِنْ أَصَابَتْهُۥ فِتْنَةٌ ٱنقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِۦ خَسِرَ ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْخُسْرَانُ ٱلْمُبِينُ ۝
(ترجمہ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ پھر اگر اسے کچھ فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے، اور اگر کوئی آزمائش آ جائے تو منہ موڑ لیتا ہے۔ اس نے دنیا اور آخرت دونوں کا نقصان اٹھایا، اور یہی کھلا نقصان ہے۔
(الحج – 11)
یعنی منافقین آزمائشوں کے وقت اپنا ایمان چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کا ایمان سچا نہیں ہوتا۔

منافقین خود کو عقلمند سمجھتے ہیں، مگر حقیقت میں دھوکہ کھاتے ہیں
يُخَٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ۝
وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ خود کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں، مگر انہیں شعور نہیں۔
(البقرہ – 9)
یعنی منافقین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ خود دھوکہ کھا رہے ہوتے ہیں۔

منافقین کا انجام بہت سخت ہے
إِنَّ ٱلْمُنَٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًۭا ۝
(ترجمہ بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے، اور تم ان کے لیے کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔
(النساء 145)
یعنی یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ منافقین کا عذاب عام کافروں سے بھی زیادہ سخت ہوگا، کیونکہ وہ دھوکہ باز ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا جن کو پکارا جاتا تھا کیا وہ ہماری طرح کے بندے تھے؟کیا جن کو پکارا جاتا تھا کیا وہ ہماری طرح کے بندے تھے؟

جی ہاں، قرآن مجید واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ جن کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے، وہ بھی تمہاری ہی طرح کے بندے (مخلوق) ہیں۔ ان میں

کیا قرآن میں اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنے کی اجازت دی گئی ہے؟کیا قرآن میں اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنے کی اجازت دی گئی ہے؟

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صاف اور قطعی انداز میں واضح فرمایا ہے کہ صرف اُسی کو پکارا جائے، اور اللہ کے سوا کسی کو مدد کے لیے، حاجت