منافقین کا انجام کیا ہے؟

قرآنِ مجید نے نفاق کو ایک نہایت خطرناک روحانی بیماری قرار دیا ہے، جو ایمان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ منافق وہ ہوتا ہے جو زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتا ہے، مگر دل میں کفر، شک یا دشمنی چھپائے رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے اسلام کا ظاہری لبادہ اوڑھ رکھا تھا، مگر ان کے دل اللہ، رسول اور مؤمنین سے بغض و عناد سے بھرے ہوئے تھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًۭا
بے شک منافقین آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور تو ان کے لیے کوئی مددگار نہ پائے گا۔
(النساء 145)

اس آیت میں منافقین کے انجام کی شدت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ جہنم کے سب سے گہرے اور سخت حصے میں ہوں گے، جہاں سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ یہ انجام اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی، دین کو مذاق بنایا، اور مؤمنین کے خلاف خفیہ سازشیں کرتے رہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا
منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور امانت دی جائے تو خیانت کرے۔
(صحیح بخاری 33، صحیح مسلم 59)

یہی علامات قرآن میں بھی منافقین کے لیے بیان ہوئی ہیں۔ لہٰذا، قرآن کی روشنی میں نفاق صرف زبانی دعویٰ کے بغیر ایمان کو عمل سے ثابت نہ کرنا ہے، اور اس کا انجام جہنم کی سب سے خوفناک وادی ہے۔ سچا مومن وہی ہے جو اپنے دل، زبان اور عمل سے خالص ایمان پر قائم ہو، اور نفاق جیسے انجام سے اللہ کی پناہ مانگے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post