شرک اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے، جو انسان کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتا ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے اللہ کی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔ مشرک نہ صرف توحید کی بنیاد کو توڑتا ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں دوسروں کو شریک کرکے ربوبیت، عبودیت اور دعا جیسے حقوق میں دوسروں کو شامل کر لیتا ہے، جو کہ قرآن کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے مشرکین کے انجام کو نہایت سخت الفاظ میں بیان کیا ہے۔شرک کا انجام ہمیشہ کی جہنم ہے۔
إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
“جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔”
(سورۃ المائدہ: 72)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مشرک کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور اس کے لیے جہنم ہی دائمی ٹھکانہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کو دوسروں کے ساتھ بانٹتا ہے، جو رب تعالیٰ کی غیرت کو گوارا نہیں۔
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ
“اللہ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرتا، اور اس کے سوا جس گناہ کو چاہے معاف کر دیتا ہے۔”
(النساء: 48)
یہ آیت بتاتی ہے کہ اگر مشرک دنیا میں توبہ نہ کرے تو اس کا شرک قیامت کے دن ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔ باقی تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے، لیکن شرک کی نہیں بشرطیکہ اس سے توبہ نہ کی جائے۔
نبی کریم ﷺ نے قبروں کی تعظیم، فوت شدگان سے مدد طلبی، اور بزرگوں کو حاجت روا ماننے جیسے شرکیہ عقائد سے سختی سے منع فرمایا، اور ہمیں توحید خالص پر قائم رہنے کا حکم دیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“من مات وهو يشرك بالله دخل النار”
“جو شخص شرک کی حالت میں مرے، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 93)
توحید پر قائم رہنا اور شرک سے مکمل اجتناب، ایمان کی اصل روح ہے۔ مشرک کا انجام قرآن و سنت کی روشنی میں دردناک عذاب اور جنت سے محرومی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم غیراللہ سے مدد مانگنے، قبروں پر سجدہ کرنے یا بزرگوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھنے جیسے اعمال سے بچیں، اور اللہ واحد پر کامل بھروسا رکھیں تاکہ ہم نجات یافتہ بن سکیں۔