جی ہاں، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک لوگ اپنے شرک اور گمراہی کا الزام بھی اللہ تعالیٰ پر ڈالنے کی جسارت کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے، نہ کوئی چیز حرام ٹھہراتے۔ اس طرح وہ اپنی گمراہی کو اللہ کی مشیت یا تقدیر کا جواز بنا کر پیش کرتے تھے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ
اور جن لوگوں نے شرک کیا وہ کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم اُس کے سوا کسی چیز کی پوجا نہ کرتے (نہ) ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو اُس کے (حکم کے) بغیر حرام ٹھہراتے اِسی طرح کیا تھا انھوں نے جو اِن سے پہلے تھے تو رسولوں کے ذمہ تو واضح طور پر پیغام پہنچا دینا ہی ہے۔
(النحل- 35)
مشرکین کا عذر
سَيَقُولُ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكْنَا وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَىْءٍۢ
مشرک لوگ کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔
(الانعام 148)
یہ مشرکین اپنے عمل کی ذمہ داری لینے کے بجائے، گمراہی کی نسبت اللہ کی مشیت کی طرف کر کے اللہ پر الزام دھرنے کی کوشش کرتے تھے۔
اللہ کا واضح رد
قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍۢ فَتُخْرِجُوهُ لَنَآ ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
کہو کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے کہ ہمارے لیے نکالو؟ تم صرف گمان کی پیروی کرتے ہو، اور محض جھوٹ گھڑتے ہو۔
(الانعام 148)
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے عذر کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ علم نہیں بلکہ صرف جھوٹ اور قیاس پر مبنی ہے۔
اللہ کی مشیت زبردستی پر نہیں بلکہ آزمائش کی بنیاد پر ہے
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى ٱلْهُدَىٰ ۚ وَلَـٰكِن لِّيُبَلِّيَهُمۡ فِي مَآ ءَاتَىٰهُمۡ
اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا، لیکن وہ ان کو آزماتا ہے اس چیز میں جو اس نے انہیں دی۔
(الأنعام 35)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ اور اختیار دیا ہے۔ مشرکین کا اپنے گناہوں کو تقدیر یا اللہ کی مشیت کا بہانہ بنا کر خود کو بری الذمہ قرار دینا نہ صرف غلط ہے بلکہ اللہ پر بہتان ہے۔