قرآنِ مجید نے مشرکین سے کیے گئے معاہدوں اور صلح کا احترام کرنے کا حکم دیا، بشرطیکہ وہ بھی اس معاہدے کی پاسداری کریں۔ دینِ اسلام عہد کی وفاداری اور عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ہے، حتیٰ کہ دشمن کے ساتھ کیے گئے معاہدے بھی نبھانا ضروری سمجھے گئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِلَّا ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْـًۭٔا وَلَمْ يُظَـٰهِرُوا۟ عَلَيْكُمْ أَحَدًۭا فَأَتِمُّوٓا۟ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ
مگر وہ مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کیا، پھر انہوں نے اس میں کوئی کمی نہ کی اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ان کے ساتھ ان کا معاہدہ اس کی مدت تک پورا کرو، بے شک اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔
(التوبہ 4)
یعنی اگر کوئی مشرک گروہ معاہدے کا احترام کرے، مسلمانوں کے خلاف نہ لڑے، اور دشمنوں کی مدد نہ کرے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ معاہدے کی مدت پوری کریں اور کسی قسم کی زیادتی نہ کریں۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے بھی اسی قرآنی اصول پر عمل کیا، اور صلح حدیبیہ سمیت دیگر معاہدوں کی مکمل پاسداری کی، جب تک کہ مخالف فریق نے پہلے عہد شکنی نہ کی۔
پس، قرآن کا حکم یہ ہے کہ معاہدہ اگر انصاف اور امن پر قائم ہو، اور مخالف فریق اس کی پابندی کرے، تو مسلمان بھی اس کے مکمل پابند رہیں، کیونکہ اسلام وفاداری، عدل اور تقویٰ کا دین ہے۔