قرآن کے مطابق مشرکین مکہ اللہ کو مانتے تھے وہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ ہی خالق ہے، روزی دیتا ہے، زندگی اور موت دیتا ہے، اور کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔
لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنے، عبادت کرنے اور حاجت روا سمجھنے کے سبب مشرک کہلائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ
اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کس نے پیدا کیے؟ تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔
(لقمان 25)
اور فرمایا
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ… فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ
پوچھو تمہیں آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟… تو وہ ضرور کہیں گے اللہ۔
(یونس 31)
یعنی وہ اللہ کے وجود، قدرت اور ربوبیت کو مانتے تھے۔ لیکن ان کا شرک یہ تھا کہ عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ
اور وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے سکتے ہیں اور نہ فائدہ۔
(یونس 18)
وہ فوت شدہ نیک بندوں، فرشتوں، جنّات یا بتوں کو اللہ سے قرب کا ذریعہ اور سفارش کرنے والے سمجھ کر پکارتے تھے۔
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰ
ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔
(الزمر 3)
یعنی ان کا شرک صرف بتوں کو پوجنا نہیں تھا، بلکہ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنا، وسیلہ بنانا، اور عبادت کے افعال دینا یہی شرک کہلایا۔
اللہ نے فرمایا
فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا
پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔
(الجن 18)
لہٰذا، صرف اللہ کو مان لینا کافی نہیں جب تک عبادت، دعا، نذر و نیاز، اور توکل صرف اللہ کے لیے نہ ہو، انسان توحید پر نہیں ہوتا۔
اسی لیے مشرکین مکہ اللہ کو ماننے کے باوجود مشرک کہلائے۔