قرآنِ مجید نے مسلمانوں کو جنگ کے دوران مخصوص آداب سکھائے، جو عدل، رحم، اور دیانت پر مبنی ہیں۔ یہ آداب محض وقتی حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک دائمی اخلاقی ضابطہ ہیں، جن پر نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے مکمل عمل کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَقَاتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَـٰتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوٓا۟ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ
اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر حد سے تجاوز نہ کرو۔ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(البقرۃ 190)
جنگ کے آداب جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں
پہل نہ کرنا جنگ کا آغاز صرف دشمن کی طرف سے زیادتی کی صورت میں کیا جائے۔
عام شہریوں کو نہ مارنا عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اور غیر لڑنے والوں کو نقصان نہ پہنچانا۔
درخت، کھیت یا جانور تباہ نہ کرنا فطرت و ماحول کو نقصان سے بچانا۔
قیدیوں سے حسنِ سلوک گرفتار دشمنوں کے ساتھ بھی نرمی اور عدل سے پیش آنا۔
امن کی پیشکش پر رک جانا اگر دشمن صلح چاہے تو جنگ روک دینا۔
نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا
کسی عورت، بچے یا راہب کو قتل نہ کرو، اور نہ ہی درختوں کو جلاؤ، نہ جانوروں کو بے وجہ ہلاک کرو۔
(ابوداؤد، رقم 2614)
اسلامی جنگ کا مقصد فتنہ کو ختم کرنا اور عدل قائم کرنا ہے، نہ کہ مال یا زمین کا لالچ۔ اس لیے قرآن مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں بھی عدل، رحم، اور اخلاق کا درس دیتا ہے، جو اسلام کی انفرادیت اور برتری کا مظہر ہے۔