مسجدِ ضرار کا واقعہ کیا ہے؟

قرآنِ مجید نے مدینہ کے نزدیک ایک ایسی مسجد کا ذکر کیا ہے جسے مسجدِ ضرار کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو منافقین نے اس نیت سے بنایا تھا کہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالیں، نبی ﷺ کی جماعت کے خلاف سازش کریں، اور دین کے دشمنوں کے لیے ایک اڈا قائم کریں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مَسْجِدًۭا ضِرَارًۭا وَكُفْرًۭا وَتَفْرِيقًۭا بَيْنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًۭا لِّمَنْ حَارَبَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ مِن قَبْلُ
اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے، کفر کرنے، مومنوں میں تفرقہ ڈالنے اور اس شخص کی تاک میں بیٹھنے کے لیے جو اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر چکا ہے۔
(التوبہ 107)

یہ مسجد مسجد قباء کے مقابلے میں بنائی گئی تھی۔ منافقین نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ وہ آ کر اس میں صلوۃ پڑھیں تاکہ اسے برکت والی مسجد کا درجہ مل جائے۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ یہ مسجد فتنہ کا گڑھ ہے، نہ کہ عبادت کی جگہ۔

چنانچہ اللہ نے اس مسجد کو منہدم کرنے کا حکم دیا

لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًۭا
آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔
(التوبہ 108)

نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ مسجد ضرار کو گرا دیں اور اسے جلا دیا گیا۔

یعنی ہر وہ عمل جو بظاہر دینی ہو، مگر نیتاً اس میں فتنہ، تفریق یا دشمنی ہو، اللہ کے نزدیک مردود ہے۔ مسجد کا احترام تب ہی معتبر ہے جب وہ اخلاص اور تقویٰ کی بنیاد پر بنائی گئی ہو۔ مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ دشمن دین کے نام پر بھی سازش کر سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ایمان والوں کو سکھاتا ہے کہ ظاہری نیکی کافی نہیں، اصل چیز نیت، تقویٰ اور وحدتِ امت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ – میں اللہ کا کیا وعدہ ہے؟وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ – میں اللہ کا کیا وعدہ ہے؟

قرآنِ مجید مؤمن مردوں اور عورتوں کو آخرت کی حقیقی کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے، اور ان کے ایمان، اعمال، تقویٰ اور صبر کے بدلے ابدی نعمتوں کا وعدہ کرتا

عقیدے کی غلطی امت کو کس طرح سیاسی اور سماجی غلامی میں دھکیلتی ہے؟عقیدے کی غلطی امت کو کس طرح سیاسی اور سماجی غلامی میں دھکیلتی ہے؟

قرآن مجید کے مطابق عقیدے میں انحراف صرف روحانی نقصان کا باعث نہیں بنتا بلکہ یہ امت کو سیاسی، سماجی اور فکری غلامی کی دلدل میں بھی دھکیل دیتا ہے۔