قرآنِ مجید میں مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا واقعہ اللہ کی قدرت اور توحید کی دلیل کے طور پر بیان ہوا ہے۔ یہ ایک معجزہ تھا جو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی ظاہری سبب کے جو چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ اسلام میں عیسیٰؑ کو اللہ کا نبی، رسول اور بندہ مانا گیا ہے، نہ کہ بیٹا یا معبود۔ ان کی پیدائش کو الٰہیت کا جواز بنانا قرآن کے مطابق سراسر گمراہی ہے۔
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ ۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٍۢ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
“اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر کہا: ہو جا، تو وہ ہو گیا۔”
(سورۃ آل عمران: 59)
یہ آیت عیسیٰؑ کی پیدائش کو توحید کی دلیل بناتی ہے، نہ کہ شرک کی بنیاد۔ اگر بغیر باپ کے پیدا ہونے کا مطلب عبادت کے لائق ہوتا تو آدمؑ کو سب سے پہلے معبود ماننا چاہیے تھا، حالانکہ وہ ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے۔ عیسیٰؑ کی ولادت کا مقصد بنی اسرائیل کو ہدایت دینا اور اللہ کی نشانی ظاہر کرنا تھا، نہ کہ ربوبیت کا اعلان کرنا۔
جیسے پچھلی امتوں نے اپنے نبیوں کو حد سے بڑھا کر معبود بنا لیا، ویسے ہی عیسائیوں نے عیسیٰؑ کو “ابن اللہ” کہنا شروع کیا
قرآن نے اس عقیدے کی بار بار تردید کی اور عیسیٰؑ کی زبان سے کہلوایا
إِنَّ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۗ هَـٰذَا صِرَٰطٌۭ مُّسْتَقِيمٌ
“یقیناً اللہ ہی میرا رب اور تمہارا رب ہے، پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔”
(آل عمران: 51)
نبی کریم ﷺ نے بھی عیسیٰؑ کو اللہ کا بندہ، رسول اور کلمہ قرار دیا اور فرمایا کہ وہ قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ آئیں گے، صلیب کو توڑیں گے اور خالص توحید کا اعلان کریں گے۔ یہ توحید کا غلبہ اور شرک کا رد ہوگا۔
لہٰذا مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کی ولادت کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور کوئی اس کا بیٹا یا شریک نہیں۔ سچی عبادت صرف اسی کے لیے ہے، اور انبیاءؑ کی عظمت ان کی بندگی اور اطاعتِ الٰہی میں ہے، نہ کہ معبود ہونے کے دعوے میں۔ یہی پیغام ہر مومن کے عقیدے کی بنیاد ہونا چاہیے۔