قرآن مجید میں تعدد ازدواج (چار شادیوں تک) کی اجازت دی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی اس کے لیے انصاف کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا
اور اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے معاملہ میں انصاف نہ کرسکو گے تو جو (دوسری) عورتیں تمھیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین یا چار چار سے نکاح کرو پھر اگر تمھیں یہ اندیشہ ہو کہ تم (ان بیویوں کے درمیان) عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی (پر اکتفا کرو) یا وہ کنیز جن کے تم مالک ہو یہ زیادہ قریب ہے کہ تم (ناانصافی اور ایک ہی طرف) جھک جانے سے بچ جاؤ۔
(النساء – 3)
اسلام میں تعدد ازدواج کے پیچھے کئی حکمتیں ہیں جیسا کہ
یتیموں اور بیواؤں کی کفالت معاشرتی انصاف کے لیے۔
نسل انسانی کا تحفظ زیادہ اولاد کی خواہش رکھنے والوں کے لیے۔
معاشرتی مسائل کا حل جیسے کسی خاص وقت میں خواتین کی تعداد کا زیادہ ہونا۔