قرآنِ مجید نے مال و اولاد کو فتنہ یعنی آزمائش اس لیے قرار دیا کہ یہ دونوں نعمتیں انسان کی توجہ کو رب کی یاد، عبادات اور دین کے تقاضوں سے ہٹا سکتی ہیں، اور بسا اوقات انسان انہی کی خاطر حق سے سمجھوتا کرنے لگتا ہے۔ شریعت نے ان نعمتوں سے مکمل کنارہ کشی کا نہیں، بلکہ ان کے اندر رہ کر اللہ کی اطاعت کا مطالبہ کیا ہے۔ نبی ﷺ اور صحابہؓ کی زندگیاں اس اعتدال کی عملی مثال ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّمَآ أَمْوَٰلُكُمْ وَأَوْلَـٰدُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَٱللَّهُ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ
تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں، اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔
( التغابن 15)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مال و اولاد اللہ کی طرف سے دی گئی نعمتیں ہیں، لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور اس کے دین سے بڑھ جائے، یا انسان ان کی خاطر گناہ کرے، تو یہی نعمتیں آزمائش بن جاتی ہیں۔
قوموں کی تاریخ میں بھی یہ حقیقت دیکھی گئی کہ جب مال کی محبت نے دلوں پر قبضہ کیا، تو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انکار کیا؛ اور جب اولاد کی محبت غالب آئی، تو انبیاء کی مخالفت کرنے لگے۔ نوح علیہ السلام کا بیٹا اور لوط علیہ السلام کی بیوی اسی فتنے کی مثال ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا
إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ.
ہر امت کے لیے ایک آزمائش رہی ہے، اور میری امت کی آزمائش مال ہے۔
(سنن ترمذی، حدیث 2336)
پس، اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مال و اولاد کو نعمت تو سمجھو، مگر ان کی محبت میں اللہ کی نافرمانی مت کرو۔ ان کو اطاعتِ الٰہی میں لگاؤ، تاکہ یہ نعمتیں آزمائش نہیں بلکہ نجات کا ذریعہ بنیں۔