لوط علیہ السلام کی دعوت میں کن باطل افعال کی نفی تھی؟

قرآن مجید کے مطابق لوط علیہ السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ دعوت توحید کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کو اُن فطری اور اخلاقی بگاڑ سے روکنا تھا جو انسانی فطرت اور شریعت دونوں کے خلاف تھا۔ ان کی قوم بدفعلی، شہوانی انحراف، اور راست انسانوں کو جلاوطن کرنے جیسے افعال میں مبتلا تھی۔ لوط علیہ السلام نے نہ صرف توحید کی دعوت دی بلکہ ان معاشرتی گناہوں کی بھی کھل کر مذمت کی جنہوں نے ان کی قوم کو اللہ کے غضب کا مستحق بنا دیا۔

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ ٱلْفَـٰحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍۢ مِّنَ ٱلْعَـٰلَمِينَ، إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ ٱلرِّجَالَ شَهْوَةًۭ مِّن دُونِ ٱلنِّسَآءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌۭ مُّسْرِفُونَ

کیا تم وہ بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا؟ تم تو مردوں کے پاس شہوت رانی کے لیے جاتے ہو بجائے عورتوں کے، بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔
(الأعراف 80–81)

یہ آیات قومِ لوط کے اس گناہِ کبیرہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو ان سے پہلے کسی قوم میں اس شدت سے نہیں پایا گیا تھا۔ لوط علیہ السلام نے واضح کیا کہ ان کا عمل فاحشہ (انتہائی بے حیائی) ہے، اور یہ فطرت کے بھی خلاف ہے اور شریعت کے بھی۔

کفر و شرک کے ساتھ ساتھ جنسی انحراف اور ہم جنس پرستی جیسے غیر فطری افعال اور ان مہمانوں اور مسافروں پر ظلم و زیادتی اور انہیں بستی سے نکال دینا۔

أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌۭ يَتَطَهَّرُونَ

ان کو اپنی بستی سے نکال دو! یہ تو بہت پاکباز بننے والے لوگ ہیں۔
(النمل 56)

یہ آیت بتاتی ہے کہ لوط علیہ السلام اور ان کے ماننے والے لوگوں کے لیے طہارت اور پاکیزگی کی دعوت دے رہے تھے، مگر قوم نے الٹا ان کو بستی سے نکالنے کی سازش کی، کیونکہ وہ ان کی فطرت شکن زندگی پر ایک عملی چیلنج بن چکے تھے۔

لوط علیہ السلام کی دعوت کا محور توحید کی دعوت دی، بلکہ انہوں نے اپنی قوم کے غیر فطری اور اخلاقی طور پر تباہ کن رویوں پر بھی تنبیہ کی۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ جب ایک قوم نہ صرف گناہ کرتی ہے بلکہ نیکی سے نفرت کرنے لگتی ہے، تو وہ اللہ کے عذاب کی مستحق بن جاتی ہے۔ لوط علیہ السلام کا پیغام آج بھی بدکاری کے عام رجحانات کے مقابل ایک واضح انتباہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا جس علاقے میں دین پر قائم نہ رہا جا سکے وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم ہے؟کیا جس علاقے میں دین پر قائم نہ رہا جا سکے وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم ہے؟

جی ہاں، اسلام میں ایسے علاقے یا ماحول سے ہجرت کرنے کا حکم ہے جہاں دین کی پختگی یا عبادات کو صحیح طریقے سے ادا کرنا مشکل ہو، یا جہاں

نبی ﷺ کے مقام و مرتبے کو ماننا اور ان کی عبادت میں فرق کیا ہے؟نبی ﷺ کے مقام و مرتبے کو ماننا اور ان کی عبادت میں فرق کیا ہے؟

نبی ﷺ کا مقام ماننا ایمان کا حصہ ہے، جبکہ ان کی عبادت کرنا شرک ہے۔ قرآنِ مجید نے نبی ﷺ کو تمام انسانوں میں سب سے بلند، سچا، معزز