قرآنِ حکیم نے نفاق کو ایک روحانی بیماری قرار دیا ہے جو انسان کے ظاہر اور باطن کو جدا کر دیتی ہے۔ منافق بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے لیکن دل میں کفر اور دوغلا پن چھپائے رکھتا ہے۔ اس کردار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شدت کے ساتھ ناپسند فرمایا ہے۔
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَبِٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ يُخَـٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، حالانکہ وہ مؤمن نہیں۔ وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھتے نہیں۔
( البقرہ 8-9)
یہ آیات نفاق کی بنیادی علامت کو واضح کرتی ہیں قول و فعل میں تضاد۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان کا زبانی دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر ان کا دل ایمان سے خالی ہوتا ہے۔ وہ اپنے دوغلے رویے سے نہ صرف خود کو نقصان دیتے ہیں بلکہ معاشرے میں بداعتمادی اور فساد کا سبب بنتے ہیں۔
إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ يُخَـٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ ۖ وَإِذَا قَامُوٓا۟ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ قَامُوا۟ كُسَالَىٰ يُرَآءُونَ ٱلنَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ إِلَّا قَلِيلًۭا
منافق اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، مگر وہی ان کو دھوکہ دیتا ہے۔ جب صلوۃ کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھانے کے لیے (صلوۃ پڑھتے ہیں) اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔
( النساء 142)
یہاں تین مزید علامات بیان ہوئیں عبادت میں سستی، دکھاوا، اور ذکر الٰہی سے غفلت۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نفاق انسان کے باطن کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کے اعمال میں اخلاص ختم ہو جاتا ہے۔
إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ ۖ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًۭا
بے شک منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے، اور تم ان کے لیے کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔
(النساء 145)
یہ وعید بتاتی ہے کہ نفاق کی سزا صرف جہنم نہیں بلکہ جہنم کا سب سے نیچ، بدترین حصہ ہے۔ یہ اس جرم کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ مؤمن کا ظاہر اور باطن یکساں ہونا چاہیے۔ اخلاص، سچائی، وعدے کی وفا اور عبادت میں خشوع وہ خوبیاں ہیں جو نفاق کا علاج ہیں۔ منافقت صرف دوسروں سے دھوکہ نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ خیانت ہے، جو انسان کو نہ دنیا میں سکون دیتی ہے نہ آخرت میں نجات۔