قرآن کے مطابق حسنِ ظن کیوں ضروری ہے؟

قرآنِ مجید میں حسنِ ظن (اچھا گمان) رکھنے کی تعلیم ایک پاکیزہ اور مہذب معاشرے کی بنیاد کے طور پر دی گئی ہے۔ بدگمانی، تجسس اور غیبت جیسے افعال کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، کیونکہ یہ دلوں میں نفرت، فتنہ اور بے اعتمادی کو جنم دیتے ہیں۔ حسنِ ظن انسان کو عدل، صبر اور محبت کی راہ پر گامزن رکھتا ہے اور معاشرتی بگاڑ سے بچاتا ہے۔

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ ۖ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا۟ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ

اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور تجسس نہ کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے…
( الحجرات 12)

یہ آیت حسنِ ظن کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں بدگمانی نہ رکھو، کیونکہ گمان بسا اوقات بے بنیاد الزام اور فتنے کا سبب بن جاتا ہے۔ بدگمانی جب دل میں جڑ پکڑتی ہے تو وہ غیبت، شک، الزام تراشی اور قطع تعلق جیسے گناہوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس حسنِ ظن دلوں کو جوڑتا ہے، رشتوں کو محفوظ کرتا ہے اور معاشرے کو سکون بخشتا ہے۔

قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں نیت صاف رکھنا، زبان کو قابو میں رکھنا، اور دل کو نفرت سے پاک رکھنا حسنِ ظن کا حقیقی مظہر ہے۔ حسنِ ظن رکھنے والا انسان ہمیشہ دوسروں کی بات کا مثبت پہلو دیکھتا ہے، جبکہ بدگمان شخص ہر بات میں عیب تلاش کرتا ہے۔ ایک مؤمن کا دل صاف ہوتا ہے، اور قرآن اسی دل کو پسند کرتا ہے جو حسنِ ظن، خیر خواہی، اور محبت سے بھرا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

اگر آباؤ اجداد کافر ہوں تو کیا ان سے دینی دوستی رکھی جاسکتی ہے؟اگر آباؤ اجداد کافر ہوں تو کیا ان سے دینی دوستی رکھی جاسکتی ہے؟

قرآن مجید واضح طور پر بتاتا ہے کہ اگر باپ،دادا یا کوئی قریبی رشتہ دار کفر اختیار کرے اور دین کے خلاف دشمنی پر اتر آئے، تو دینی دوستی اور

مَثْوَى لَهُمْ جَهَنَّمُ – کن لوگوں کا انجام ہے؟مَثْوَى لَهُمْ جَهَنَّمُ – کن لوگوں کا انجام ہے؟

قرآنِ مجید نے نافرمانوں، منکرینِ حق، اور فاسق و فاجر لوگوں کے انجام کو نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا ہے، تاکہ انسان حق اور باطل کے انجام میں فرق

اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے کیسے تیار کیا؟اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے کیسے تیار کیا؟

قرآنِ مجید نے رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں جہاد کی تیاری کو نہایت حکمت، صبر، تربیت اور اللہ پر توکل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے