قرآنِ مجید کے مطابق بہترین امت وہ ہے جو خیر، عدل، اور ہدایت کی علمبردار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو خیر اُمت کا مقام عطا فرمایا، مگر اس عظیم مرتبے کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی وابستہ کی ہیں۔ یہ خصوصیات محض نسب یا دعوے سے نہیں ملتیں بلکہ ان کے لیے عمل، ایمان، اور حق کی گواہی ضروری ہے۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی، نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
(آل عمران 110)
اس آیت میں بہترین امت کی تین بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں
امر بالمعروف – نیکی کا حکم دینا
نہی عن المنکر – برائی سے روکنا
ایمان باللہ – مضبوط اور سچا ایمان رکھنا
یہ صفات کسی قوم کو ظاہری عظمت نہیں بلکہ روحانی و اخلاقی عظمت عطا کرتی ہیں۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ بہترین امت وہ ہے جو صرف اپنے فائدے کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی اصلاح کے لیے میدان میں آئے۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَـٰكُمْ أُمَّةًۭ وَسَطًۭا لِّتَكُونُوا۟ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ
(البقرۃ 143)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک معتدل (درمیانی) امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان امت کو اعتدال، توازن اور عدل کا نمائندہ بن کر دنیا میں کردار ادا کرنا ہے۔ ان کی زندگی خود ایک دلیل ہونی چاہیے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔
نتیجتاً، قرآن کے مطابق بہترین امت وہ ہے جو خود بھی اللہ پر کامل ایمان رکھے، اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دے، ظلم و گناہ سے روکے، اور حق کے لیے گواہی دے۔ یہ امت اپنی مثال سے دنیا کو سچائی، عدل اور خیر کی طرف بلاتی ہے۔ اگر مسلمان ان خصوصیات کو چھوڑ دیں، تو وہ بہترین امت کا درجہ کھو بیٹھتے ہیں، اور اگر ان کو اپنائیں، تو دنیا و آخرت میں سربلند ہو جاتے ہیں۔