قرآنِ مجید کے مطابق انسان کی اصل کامیابی دنیاوی مال و دولت یا شہرت نہیں، بلکہ تقویٰ، اطاعتِ الٰہی، اور آخرت میں فلاح کا حاصل ہونا ہے۔ کامیابی وہ ہے جو عارضی نہ ہو بلکہ دائمی ہو، جو صرف ظاہری نہ ہو بلکہ باطنی سکون، نجات اور اللہ کی رضا پر مبنی ہو۔ قرآن ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ اصل کامیاب وہی ہے جو گناہوں سے بچ جائے، جنت پا لے، اور جہنم سے بچا لیا جائے۔
فَمَن زُحْزِحَ عَنِ ٱلنَّارِ وَأُدْخِلَ ٱلْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلْغُرُورِ
پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، یقیناً وہی کامیاب ہوا، اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔
( آل عمران 185)
یہ آیت ایک واضح میزان ہے حقیقی کامیابی کا پیمانہ نہ دولت ہے، نہ شہرت، بلکہ اللہ کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔ دنیا فانی ہے، اس کے عیش دھوکہ ہیں، جبکہ آخرت باقی ہے اور وہی اصل امتحان کا میدان ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَـٰشِعُونَ
بیشک مؤمن کامیاب ہو گئے، جو اپنی صلوۃ میں خشوع و خضوع رکھنے والے ہیں۔
(المؤمنون 1-2)
یہاں قرآن کامیابی کو ایمان، صلوۃ میں خشوع، اور اطاعت سے جوڑتا ہے۔ یعنی اصل کامیابی صرف اعتقاد میں نہیں، بلکہ عمل، عبادت، اور اخلاق میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کامیابی نہ صرف آخرت میں اجر لاتی ہے بلکہ دنیا میں بھی سکون اور عزت عطا کرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کے مطابق انسان کی اصل کامیابی وہ ہے جو اللہ کے قریب لے جائے، گناہوں سے بچائے، اور جنت کا راستہ کھول دے۔ یہ کامیابی صرف عقلمند، صابر، اور متقی لوگوں کا مقدر بنتی ہے، اور یہی وہ فلاح ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔