قرآنِ مجید نے ایمان کو درخت سے تشبیہ دے کر اس کے اثرات، مضبوطی اور نتیجہ خیزی کو ایک سادہ مگر گہری مثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ یہ مثال نہ صرف ایمان کی بنیاد، بلکہ اس کے ثمرات کو بھی واضح کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا كَلِمَةًۭ طَيِّبَةًۭ كَشَجَرَةٍۢ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌۭ وَفَرْعُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ تُؤْتِىٓ أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍۭ بِإِذْنِ رَبِّهَا
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاکیزہ بات کی مثال ایک پاکیزہ درخت کی دی ہے، جس کی جڑ زمین میں مضبوط ہے اور شاخیں آسمان میں، وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے۔
( ابراہیم 24-25)
اس مثال کی وضاحت
کلمہ طیبہ (لا إله إلا الله) کی بنیاد مضبوط ایمان ہے، جیسے درخت کی جڑ۔ اس درخت کی شاخیں اعمال صالحہ ہیں، جو بلند، نفع بخش اور آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں۔ پھل دینا اس بات کی علامت ہے کہ سچا ایمان انسان کی زندگی میں نیک عمل، حسنِ اخلاق، اور دوسروں کو فائدہ دینے کا باعث بنتا ہے۔
پائیداری جیسے درخت مضبوط زمین میں جما ہو، ایمان بھی دل میں مضبوط ہوتا ہے اور طوفانوں (آزمائشوں) سے متزلزل نہیں ہوتا۔
نفع رسانی درخت دوسروں کو سایہ، پھل، اور آکسیجن دیتا ہے؛ سچا مؤمن بھی اپنے ایمان سے دوسروں کو بھلائی پہنچاتا ہے۔ ایمان کوئی محض دعویٰ نہیں بلکہ ایک زندہ اور نشوونما پانے والی حقیقت ہے، جو اندر سے مضبوط، اوپر سے بلند، اور معاشرے کے لیے نفع بخش ہوتی ہے۔ قرآن کی یہ مثال ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے ایمان کی جڑ کو مضبوط کریں، اعمال صالحہ کے ذریعے اسے بڑھائیں، اور دوسروں کے لیے خیر و بھلائی کا سبب بنیں۔