قرآنِ کریم میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے فوراً بعد ذکر کیا گیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ والدین کے حقوق دینِ اسلام میں نہایت بلند اور مقدس حیثیت رکھتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں فرمایا کہ
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
“اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو”۔
(بنی اسرائیل-23)
یہ آیت اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک کرنا کوئی اختیاری نیکی نہیں بلکہ الٰہی حکم ہے، اور عبادت کے بعد سب سے اہم عمل ہے۔
اسی آیت میں مزید فرمایا گیا
إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ
اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ‘اف’ تک نہ کہو، اور نہ ہی انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے ادب سے بات کرو ۔
یہ حکم صرف ظاہری خدمت تک محدود نہیں بلکہ نرمی، عزت، ادب اور عاجزی پر بھی زور دیا گیا ہے۔ والدین کی دل آزاری میں ایک لفظ اف کہنے کو بھی اللہ نے منع فرما دیا ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک صرف ان کے زندہ ہونے تک محدود نہیں، بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے لیے دعا کرنا، صدقہ جاریہ کرنا اور ان کے رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا، سب برّ الوالدین (والدین کی نیکی) میں شامل ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ والدین کی خدمت دراصل اللہ کی رضا کا راستہ ہے۔ اس لیے جو شخص اپنے والدین کے ساتھ نرمی، محبت اور عزت سے پیش آتا ہے، وہ دنیا و آخرت دونوں میں فلاح پاتا ہے۔