قرآن مجید میں نرم گفتاری کی روشن مثال موسیٰ علیہ السلام کی ہے، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں فرعون جیسے جابر و سرکش بادشاہ کے پاس بھیجا تو حکم دیا کہ نرمی سے بات کرنا تاکہ شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ اس واقعے سے قرآن یہ سبق دیتا ہے کہ سخت ترین حالات میں بھی نرم لہجہ مؤثر ترین طریقۂ اصلاح ہے، کیونکہ نرمی دلوں میں اُترتی ہے، جب کہ سختی ضد پیدا کرتی ہے۔
ٱذْهَبَآ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ فَقُولَا لَهُۥ قَوْلًۭا لَّيِّنًۭا لَّعَلَّهُۥ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بے شک وہ سرکشی کر چکا ہے۔
پھر اس سے نرم بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
(طٰہٰ 43-44)
فرعون نہ صرف اللہ کا انکار کرتا تھا بلکہ خود کو ربِ اعلیٰ کہتا تھا، اور بنی اسرائیل پر ظلم کے پہاڑ توڑتا تھا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اس کے ساتھ بھی نرم لہجہ اختیار کرو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نرمی، تبلیغ و دعوت کا اصل اسلوب ہے اور یہ صرف ادب نہیں بلکہ ایک حکمت عملی بھی ہے جو مخاطب کے دل میں اثر پیدا کرتی ہے۔
قرآن کے مطابق نرمی کوئی کمزوری نہیں بلکہ اصل قوت ہے۔ نرم گفتار انسان دوسروں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے، اور اس کے کلام میں وہ تاثیر ہوتی ہے جو سخت ترین دلوں کو بھی نرم کر سکتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بدترین حالات میں بھی لہجہ نرم رکھنا چاہیے، کیونکہ یہی نبوی طریقہ ہے اور یہی قرآنی حکمت۔