قرآن میں لوگوں کے درمیان صلح کروانے کی کیا فضیلت ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں لوگوں کے درمیان صلح کروانے کو ایک عظیم نیکی اور اللہ کے قرب کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جب دو افراد یا گروہوں کے درمیان دشمنی، بغض یا جھگڑا پیدا ہو جائے، تو ان کے درمیان اصلاح کی کوشش کرنا ایسا عمل ہے جو صرف معاشرے کی بہتری نہیں بلکہ فرد کے روحانی مقام کو بھی بلند کرتا ہے۔ قرآن صلح کو اختلاف اور فساد سے بہتر قرار دیتا ہے، کیونکہ صلح سے دل جڑتے ہیں، بھائی چارہ قائم ہوتا ہے اور شیطان کی چالیں ناکام ہوتی ہیں۔

لَّا خَيْرَ فِى كَثِيرٍۢ مِّن نَّجْوَىٰهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَـٰحٍۢ بَيْنَ ٱلنَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِ ٱللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًۭا عَظِيمًۭا
(النساء 114)

ان کی بہت سی چھپی باتوں میں کوئی بھلائی نہیں، سواۓ اس کے جو صدقہ دینے، یا نیکی کا حکم دینے، یا لوگوں کے درمیان صلح کروانے کا ہو۔ اور جو یہ (کام) اللہ کی رضا کے لیے کرے، ہم اسے بڑا اجر دیں گے۔

اس آیت میں لوگوں کے درمیان صلح کروانے کو اتنا اہم قرار دیا گیا ہے کہ اسے عظیم اجر کا مستحق بتایا گیا ہے۔ یہ عمل صرف سماجی خدمت نہیں بلکہ روحانی عبادت ہے، جو اللہ تعالیٰ کو خوش کرتی ہے۔

إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌۭ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
( الحجرات 10)

مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرواؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

یہ آیت صلح کروانے کو صرف نیکی نہیں بلکہ ایمان کا تقاضا قرار دیتی ہے۔ مومن وہی ہے جو جھگڑے کی آگ کو بجھائے، دلوں کو جوڑے، اور اپنے بھائی کے حق میں خیر کی کوشش کرے۔ قرآن کا پیغام ہے کہ صلح نہ صرف جھگڑوں کا خاتمہ کرتی ہے، بلکہ اللہ کی رحمت کو بھی دعوت دیتی ہے۔

نتیجتاً، قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ صلح کروانا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے جیسا ہے یہ بگاڑ کے مقابل اصلاح کی جنگ ہے۔ صلح کی کوشش کرنے والا شخص محبت، برداشت، اور خیر خواہی کی روشن مثال بن جاتا ہے، اور اس کا کردار معاشرے کے امن اور ایمان کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

نبی ﷺ نے جو پیشن گوئیاں فرمائی ہیں کیا وہ تجربے کی بنیاد پر تھیں یا وحی کی بنیاد پر؟نبی ﷺ نے جو پیشن گوئیاں فرمائی ہیں کیا وہ تجربے کی بنیاد پر تھیں یا وحی کی بنیاد پر؟

نبی کریم ﷺ کی تمام پیشین گوئیاں، غیبی خبریں اور آنے والے حالات کے بیانات تجربے، اندازے یا قیاس پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی پر مبنی تھے۔ فرمایا

کیا ہم سے دوسروں کے اعمال کا سوال کیا جائے گا؟کیا ہم سے دوسروں کے اعمال کا سوال کیا جائے گا؟

ہر انسان سے صرف اس کے اپنے اعمال کا سوال کیا جائے گا، دوسروں کے اعمال کا نہیں۔ اس کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا کہ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ

غوث اعظم مدد کہنا قرآن و سنت کی روشنی میں کیسا ہے؟غوث اعظم مدد کہنا قرآن و سنت کی روشنی میں کیسا ہے؟

دینِ اسلام میں تمام حاجات اور استغاثہ صرف اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا حکم ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو مدد کے لیے پکارنا، خاص طور پر اس نیت