قرآنِ مجید میں ضعیفوں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کو محض ایک سماجی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ کے قرب اور حقیقی دینداری کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ طبقے ہیں جو معاشرے میں سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں، اور ان کی کفالت اور عزت کرنا مومن کے دل میں رحم، انکساری اور عدل کی علامت ہے۔ قرآن ان کی دیکھ بھال کو ایمان، تقویٰ اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی واضح علامت بتاتا ہے، اور ان سے غفلت کو جہنم والوں کی صفت۔
وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْيَتَـٰمَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌۭ لَّهُمْ خَيْرٌۭ ۚ
اور وہ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجیے ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے۔
( البقرۃ 220)
كَلَّا بَل لَّا تُكْرِمُونَ ٱلْيَتِيمَ. وَلَا تَحَـٰٓضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ
یقیناً (تمہارے حال کا سبب یہ ہے کہ) تم یتیم کا احترام نہیں کرتے۔ اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔
( الفجر 17–18)
قرآن یتیموں سے حسن سلوک کو عبادت کی طرح اہمیت دیتا ہے۔ ان کی عزت، ان کے مال کی حفاظت، اور ان کی تربیت کو صرف سماجی بھلائی نہیں بلکہ ایمانی امتحان قرار دیا گیا ہے۔ جب یتیم یا مسکین کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے، تو یہ درحقیقت اللہ کی رضا کی طرف قدم ہوتا ہے، اور جو ایسا نہیں کرتا، وہ گویا دین کی تکذیب کرتا ہے، جیسا کہ الماعون میں فرمایا گیا ہے أَرَءَيْتَ ٱلَّذِى يُكَذِّبُ بِٱلدِّينِ… فَذَٰلِكَ ٱلَّذِى يَدُعُّ ٱلْيَتِيمَ یعنی دین کو جھٹلانے والا وہی ہے جو یتیم کو دھتکارتا ہے۔
الانسان میں اللہ تعالیٰ نے ان نیک بندوں کا تذکرہ کیا جو صرف اللہ کی رضا کے لیے یتیم، مسکین اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں، بغیر کسی بدلے یا شکریے کی تمنا کے۔ یہ بلند کردار اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب دل اللہ کی معرفت سے لبریز ہو، اور انسان دوسرے انسانوں کے لیے ہمدرد ہو۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ جو شخص کمزور، بے سہارا، اور محتاج انسانوں کی مدد کرتا ہے، وہ اللہ کی رحمت کے قریب ہوتا ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف دنیا میں عزت پاتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو یتیم کو دھتکارتا ہے یا مسکین کو حقیر سمجھتا ہے، وہ اپنے دین کا جھوٹا دعوے دار ہے۔ یتیم کی مسکراہٹ، مسکین کی دُعا اور ضعیف کے دل کی راحت میں وہ برکت ہے جو دنیا و آخرت دونوں کو روشن کر دیتی ہے۔