قرآن میں رزق حلال کی کیا تلقین ہے؟

قرآن مجید میں رزق حلال کی طلب اور کمائی پر نہایت زور دیا گیا ہے، کیونکہ انسان کی روحانیت، دعاؤں کی قبولیت، اور اعمالِ صالحہ کی بنیاد اسی پر ہے۔ حلال رزق صرف کھانے پینے کی پاکیزگی نہیں بلکہ کمائی کے تمام ذرائع کی طہارت کا نام ہے۔ قرآن نے بارہا ہمیں تاکید کی ہے کہ ہم وہی کھائیں جو حلال اور طیب ہو، اور دوسروں کا حق مار کر یا ناجائز طریقے سے مال نہ کمائیں۔

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُوا۟ مِمَّا فِى ٱلْأَرْضِ حَلَـٰلًۭا طَيِّبًۭا ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا۟ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيْطَـٰنِ ۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّۭ مُّبِينٌ

اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے، وہ کھاؤ، اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
(البقرۃ 168)

اس آیت میں رزق حلال کو اختیار کرنا اللہ کی اطاعت، اور حرام کو اختیار کرنا شیطان کی پیروی قرار دیا گیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ رزق کا مسئلہ صرف معاشی نہیں بلکہ عقیدے اور اخلاق کا بھی ہے۔ حلال روزی دل کو پاک کرتی ہے، جبکہ حرام روزی دل کو سیاہ کر دیتی ہے اور اعمال کو بے اثر بنا دیتی ہے۔

وَلَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ

اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔
(البقرۃ 188)

یہ حکم ہمیں ان تمام ذرائع سے باز رہنے کا کہتا ہے جو دھوکہ، فریب، جھوٹ، سود، یا ظلم پر مبنی ہوں۔ حلال کمائی صرف مالی فائدہ نہیں بلکہ اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
جو گوشت حرام سے پیدا ہو، وہ جہنم کی آگ کے لائق ہے۔ (ترمذی)

نتیجتاً، قرآن کی روشنی میں رزق حلال کا اختیار کرنا ایمان کی علامت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ کمائی کے ذرائع میں پاکیزگی، دیانت، اور عدل کو لازم سمجھے۔ رزقِ حلال صرف دنیا میں سکون کا ذریعہ نہیں بلکہ آخرت کی نجات اور اللہ کی رضا کا سبب بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا شرعی جواز ہے؟کیا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا شرعی جواز ہے؟

اسلام میں القابات اور عناوین کا استعمال شرعی نصوص اور صحابہ و تابعین کے تعامل کی روشنی میں ہی معتبر ہوتا ہے۔ بعض صوفی سلسلوں میں “غوث”، “قطب”، “ابدال”، “اوتاد”