قرآن میں دوسروں کی مدد کرنے کو کس طرح بیان کیا گیا ہے؟

قرآنِ مجید میں دوسروں کی مدد کو ایمان، احسان اور نیکی کا عملی مظہر قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار ترغیب دی ہے کہ وہ محتاج، مظلوم، اور ضرورت مندوں کی مدد کریں، کیونکہ یہ عمل اللہ کی رضا کے قریب کرتا ہے اور معاشرے میں عدل، رحم، اور محبت پیدا کرتا ہے۔ مدد صرف مال سے نہیں، بلکہ وقت، مشورے، علم، اور اخلاق کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے، اور قرآن اس کو نیکی کے عظیم درجات میں شمار کرتا ہے۔

وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ ۚ

اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
(المائدہ 2)

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ ۖ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءًۭ وَلَا شُكُورًا

ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
(الدھر 9)

قرآن میں دوسروں کی مدد کو صرف سماجی خدمت نہیں بلکہ اللہ کے راستے میں قربانی قرار دیا گیا ہے۔ سچے مومن وہ ہیں جو مدد کرنے میں اخلاص رکھتے ہیں، اور ان کا مقصد شہرت، دنیاوی فائدہ یا بدلہ نہیں ہوتا بلکہ صرف اللہ کی رضا۔ اس میں جو پاکیزگی ہے وہ انسان کو روحانی بلندی عطا کرتی ہے، اور آخرت میں جنت کا دروازہ کھولتی ہے۔

مدد کے جذبے کو صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری بھی سمجھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر مؤمنوں کو قرضِ حسنہ دینے، محتاجوں کو کھلانے، مسافروں، قیدیوں، یتیموں اور مسکینوں کی حاجت پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ سب نیکی کے وہ کام ہیں جن کا صلہ اللہ نے خود اپنے ذمہ لیا ہے۔

قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ جو انسان دوسروں کی مدد کرتا ہے، وہ نہ صرف دلوں کو جوڑتا ہے بلکہ اللہ کی رحمت کا مستحق بن جاتا ہے۔ معاشرے میں اخوت، محبت اور مساوات اسی وقت قائم ہوتی ہے جب افراد ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ نیکی کا یہ سفر دنیا میں سکون اور آخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا اللہ نے خود رسول اللہ ﷺ کو بھی کفار کی خواہشات پر چلنے کے حوالے سے تنبیہ فرمائی ہے؟کیا اللہ نے خود رسول اللہ ﷺ کو بھی کفار کی خواہشات پر چلنے کے حوالے سے تنبیہ فرمائی ہے؟

جی ہاں، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بھی کفار کی خواہشات پر چلنے کے حوالے سے واضح تنبیہ فرمائی ہے۔ قرآن مجید میں اس بات کو کئی مقامات