قرآنِ مجید میں خاموشی اور غور و فکر کو نہایت اہم مقام دیا گیا ہے، کیونکہ یہی وہ اوصاف ہیں جو انسان کو ہدایت تک پہنچاتے ہیں۔ خاموشی دل و دماغ کو سکون عطا کرتی ہے، اور تدبر انسان کو حقائق کے قریب لے جاتا ہے۔ قرآن صرف پڑھنے کی کتاب نہیں بلکہ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ یعنی غور و فکر کی دعوت دینے والی کتاب ہے۔ جب انسان دنیا کے شور سے الگ ہو کر خاموشی اختیار کرتا ہے، تو دل میں اللہ کا کلام اُترنے لگتا ہے۔
كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ إِلَيْكَ مُبَـٰرَكٌۭ لِّيَدَّبَّرُوٓا۟ ءَايَـٰتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَـٰبِ
یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں، اور عقل والے نصیحت حاصل کریں۔
(ص 29)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اصل غرض تدبر ہے، اور یہ تب ممکن ہے جب انسان خاموش ہو کر سنجیدگی سے کلامِ الٰہی پر غور کرے۔ خاموشی دل کو نرم کرتی ہے، اور غور و فکر عقل کو جلا دیتا ہے۔ اسی امت کو قرآن نے عقل رکھنے والی قوم بننے کی تلقین کی ہے۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَآ
تو کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟
(محمد 24)
یہ آیت ایک شدید تنبیہ ہے کہ اگر کوئی قرآن کو بغیر تدبر کے پڑھے، یا صرف زبانی تلاوت پر اکتفا کرے، تو وہ دل قفل زدہ بن جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف زبانی عبادت نہیں بلکہ شعور، فہم، اور غور و فکر ضروری ہے۔
نتیجتاً، قرآن کے مطابق خاموشی اور تدبر ایمان کی علامت ہیں۔ جو لوگ دل سے سننے، عقل سے سوچنے، اور عمل سے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، وہی ہدایت پاتے ہیں۔ ایک مومن کا دل قرآن سن کر لرزتا ہے، اور وہ خاموشی میں رب کا پیغام سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی خاموشی اس کے دل میں ہدایت، سکون اور اللہ کی محبت کا چراغ روشن کرتی ہے۔