قرآنِ حکیم جھوٹے وعدے کرنے والوں کو سخت تنبیہ کرتا ہے اور ان کے کردار کو نفاق، خیانت اور دھوکہ دہی سے تعبیر کرتا ہے۔ وعدہ خلافی محض ایک اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک ایک سنگین گناہ ہے۔ جو لوگ وعدے کر کے انہیں پورا نہیں کرتے، وہ نہ صرف لوگوں کا اعتماد توڑتے ہیں بلکہ اللہ کے عہد کو بھی پامال کرتے ہیں، اور ایسا کردار مؤمن کی شان کے خلاف ہے۔
وَأَوْفُوا۟ بِٱلْعَهْدِ ۖ إِنَّ ٱلْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔولًۭا
اور وعدے کو پورا کرو، بے شک وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
(الإسراء 34)
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وعدہ صرف ایک انسانی معاملہ نہیں بلکہ اللہ کے ہاں جوابدہی کا سبب ہے۔ قیامت کے دن وعدوں کے بارے میں سوال ہوگا، چاہے وہ لوگوں کے ساتھ کیے گئے ہوں یا اللہ کے ساتھ۔ وعدے کی خلاف ورزی کو قرآن میں جھوٹ سے ملایا گیا ہے، اور جھوٹ کا تعلق نفاق سے جوڑا گیا ہے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ ٱللَّهِ وَأَيْمَـٰنِهِمْ ثَمَنًۭا قَلِيلًا ۙ أُو۟لَـٰٓئِكَ لَا خَلَـٰقَ لَهُمْ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ
بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ دیتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
( آل عمران 77)
یہ آیت ان لوگوں کی حالت بیان کرتی ہے جو وقتی مفاد کے لیے وعدے توڑتے ہیں یا جھوٹ بول کر قسمیں کھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، کیونکہ انہوں نے دنیا کے فائدے کے بدلے اپنا دین بیچ دیا۔ یہ نہایت سخت وعید ہے۔
نتیجتاً، قرآن سچا وعدہ نبھانے کو ایمان کی علامت اور وعدہ توڑنے کو نفاق کی علامت قرار دیتا ہے۔ ایک مؤمن اپنے قول و قرار میں پکا، باوفا اور سچا ہوتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر وعدہ اللہ کی گواہی میں ہے۔ وعدہ نبھانا صرف دوسروں کا حق نہیں، بلکہ یہ بندے کی اللہ سے وفاداری کی علامت بھی ہے۔