قرآن میں کفار مکہ کو دی گئی مثالوں پر ان کے اعتراضات کی نوعیت بنیادی طور پر تکبر، لاعلمی، عناد، اور ضد پر مبنی تھی۔ ان کے اعتراضات کا مقصد ہدایت کا انکار اور حق سے گریز تھا، نہ کہ سمجھنے کی نیت۔
وَإِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَحْدَهُ ٱشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْـَٔاخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ ٱلَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔
(الزمر 45)
پھر اسکے بعد کفار کے اعتراض کی چند انواع یہ ہیں
1۔ مثالوں کو حقیر و عجیب سمجھنا
کفار کا کہنا تھا کہ اللہ مکھی، مکّان، مکڑی جیسے معمولی مخلوق کی مثال کیوں دیتا ہے؟ اسکا اشارہ اللہ نے البقرہ کی 26 نمبر آیت میں کیا۔
2۔ اعتراض اتنی چھوٹی چیزوں کی مثال کیوں؟
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا ۭ وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ
بے شک اللہ اس بات سےجھجک محسوس نہیں فرماتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی (حقیر) شے کی مثال بیان فرمائے لہٰذا جو لوگ ایمان لائے تو وہ جانتے ہیں کہ یہ (مثال) ان کے ربّ کی طرف سے حق ہے اور جنھوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں اللہ نے اس مثال سے کیا ارادہ کیا ہے ؟ اس (مثال) سے (اللہ) بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اوراس سے بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے اوراس سےوہ صرف نا فرمانوں کوہی گمراہ کرتاہے۔
(البقرہ 26)
اس میں اللہ کا جواب یہ ہے کہ
مچھر جیسی معمولی چیز کی مثال بھی دی جائے گی اگر اس میں علم، سبق، یا حقیقت ہو۔
مؤمن عبرت لیتے ہیں، کفار اعتراض کرتے ہیں۔
3۔ حق کا انکار کرتے ہوئے مذاق اڑانا
کفار کہتے یہ تمثیلی باتیں، جنت و جہنم، فرشتے، حساب… سب افسانے ہیں۔
اِنَّهٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِيًّا حَتّٰٓي اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِيْ وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ
بےشک میرے بندوں میں سے ایک گروہ (ایسا بھی) تھا جوکہتا تھا اے ہمارے ربّ ! ہم ایمان لائے پس تُو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تُو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔ لہٰذا تم نے ان کا مذاق بنا لیا تھا یہاں تک کہ اس (مشغلہ) نے تمھیں میری یاد بھلادی اور تم ان پر ہنسا کرتے تھے۔
(المؤمنون 109–110)
4۔ مثالوں سے سبق نہ لینا
قرآن میں قومِ نوح، عاد، ثمود، فرعون، نمرود، اور ابلیس کی مثالیں بار بار دی گئیں، مگر کفار ان کو سچائی کے طور پر نہیں لیتے، بلکہ داستان سمجھ کر ٹالتے رہے۔
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا
اور انھوں نے کہا یہ تو پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو انھوں نے لکھوا لی ہیں پھر وہی ان پر پڑھی جاتی ہیں صبح و شام۔
(الفرقان5)
قرآن کا دو ٹوک جواب
وَتِلْكَ ٱلْأَمْثَـٰلُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَآ إِلَّا ٱلْعَـٰلِمُونَ
اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور ان کو وہی سمجھتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
(العنكبوت 43)
دراصل کفار کا اعتراض دل کی ضد اور اندھی مخالفت کے سبب ظاہری مثال پر تھا ۔ جبکہ مؤمن مثال سے ہدایت لیتا ہے، کافر مذاق بناتا ہے۔ اور مثال سے اللہ کا مقصد حقیقت کو نمایاں کرنا اور سمجھنے میں آسان بنانا ہے۔