قرآنِ حکیم کے مطابق دوسروں کا مذاق اُڑانا صرف ایک اخلاقی خرابی نہیں بلکہ ایک ایمانی کمزوری اور معاشرتی فساد کا ذریعہ ہے۔ یہ عمل دلوں میں نفرت، تکبر، اور تحقیر کو جنم دیتا ہے، جس سے بھائی چارہ، محبت اور عدل جیسی بنیادی قرآنی اقدار پامال ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو واضح حکم دیا ہے کہ وہ کسی بھی قوم، فرد یا جماعت کا مذاق نہ اُڑائیں، کیونکہ جسے تم کمتر سمجھ رہے ہو، ممکن ہے وہ اللہ کے نزدیک تم سے بہتر ہو۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌۭ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُونُوا۟ خَيْرًۭا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌۭ مِّن نِّسَآءٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُنَّ خَيْرًۭا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا۟ بِٱلْأَلْقَـٰبِ ۖ بِئْسَ ٱلِٱسْمُ ٱلْفُسُوقُ بَعْدَ ٱلْإِيمَـٰنِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
(الحجرات 11)
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہو، اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں طعن و تشنیع نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد فسق کا نام لینا بہت برا ہے، اور جو توبہ نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
یہ آیت مؤمنوں کے اخلاقی ڈھانچے کو مضبوط کرتی ہے۔ قرآن یہاں صرف ظاہری عمل کو نہیں بلکہ دل کی کیفیت اور نیت کو بھی زیرِ بحث لاتا ہے۔ مذاق اڑانے والا شخص درحقیقت تکبر، حسد اور برتری کے فریب میں مبتلا ہوتا ہے، جو کہ تقویٰ کے منافی ہے۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ برتری کا معیار نہ شکل ہے، نہ قبیلہ، نہ دولت بلکہ تقویٰ ہے۔ اس آیت میں فسق جیسے سخت الفاظ استعمال کیے گئے، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مذاق اُڑانا صرف ایک سماجی خرابی نہیں بلکہ ایمان کے بعد فسق میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔
برے القابات اور طعنہ زنی کے ساتھ ساتھ قرآن نے مذاق اُڑانے کو بھی ان اعمال میں شامل کیا ہے جن سے فوراً توبہ لازم ہے۔ ایسا شخص جو باز نہ آئے، قرآن اسے الظالمون یعنی ظلم کرنے والوں میں شمار کرتا ہے۔ گویا یہ صرف دوسروں کی توہین نہیں بلکہ خود اپنے ایمان پر ظلم ہے۔ ایک مؤمن کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے، اور ان کے عیوب پر ہنسنے کے بجائے ان کے لیے دعا کرے۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ عزت کا راستہ دوسروں کو عزت دینے سے گزرتا ہے۔ مذاق اڑانا دراصل خود اپنی شخصیت کو گرا دینا ہے۔ جو لوگ دوسروں کی کمزوریوں پر ہنستے ہیں، وہ اپنے اخلاق کی کمزوری ظاہر کرتے ہیں۔ ایک صالح معاشرہ اسی وقت قائم ہوتا ہے جب ہر فرد دوسرے کے وقار، جذبات اور خودی کا خیال رکھے۔ یہی سچّے ایمان کا مظہر ہے۔