قرآنِ حکیم میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایک بنیادی دینی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ وصف ہے جو بہترین امت کی پہچان بنایا گیا ہے۔ یہ عمل نہ صرف فرد کے ایمان کا ثبوت ہے بلکہ اجتماعی اصلاح اور معاشرتی بیداری کا ذریعہ بھی ہے۔ جب معاشرہ نیکی کو فروغ دے اور برائی کو روکے، تو اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور فتنوں سے حفاظت ہوتی ہے۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
( آل عمران 110)
اس آیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو بہترین امت کی بنیادی صفت بتایا گیا ہے۔ یہ ذمہ داری صرف علماء یا حکمرانوں کی نہیں بلکہ ہر ایمان والے مرد اور عورت کی ہے۔ نیکی کا حکم دینا صرف دعوت نہیں بلکہ ایک عملی جہاد ہے جو دلوں کو زندہ کرتا ہے، اور برائی سے روکنا اور شیطان کی راہوں کو بند کرنے جیسا ہے۔
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌۭ يَدْعُونَ إِلَى ٱلْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے، اور برائی سے روکے، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
( آل عمران 104)
یہ آیت وضاحت کرتی ہے کہ فلاح و کامیابی کا راستہ انہی لوگوں کے لیے ہے جو بھلائی کی دعوت دیتے ہیں۔ جب ایک مومن نیکی کو عام کرنے اور برائی کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ صرف فرد نہیں بلکہ پورے معاشرے کو سنوارتا ہے۔ اگر نیکی کا حکم دینا بند ہو جائے اور برائی پر خاموشی چھا جائے، تو پھر فساد پھیلتا ہے اور اللہ کی ناراضی نازل ہوتی ہے۔
نتیجتاً، امر بالمعروف و نہی عن المنکر صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ دینِ اسلام کا زندہ نظام ہے۔ یہ عمل نہ صرف زبان سے، بلکہ کردار، دُعا، اور حکمت سے بھی ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ جہاں نیکی دیکھے، اسے پھیلائے، اور جہاں برائی دیکھے، اسے روکنے کی کوشش کرے، تاکہ وہ اللہ کے نزدیک کامیاب بندوں میں شمار ہو۔