قرآنِ کریم میں امانت داری کو ایک نہایت اعلیٰ اخلاقی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو ایمان، نبوت اور عدل سے جُڑی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اہلِ ایمان کو امانتوں کی حفاظت کا حکم دیا، بلکہ انبیاء علیہم السلام کی صفات میں بھی اسے نمایاں مقام عطا کیا۔ امانت داری کا تعلق صرف مالی معاملات سے نہیں، بلکہ قول، فعل، عدل، اور حکمرانی جیسے ہر دائرۂ کار پر محیط ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا۟ ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا ۖ
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔
(النساء 58)
یہ آیت نہ صرف ذاتی امانتوں کی واپسی کی تاکید کرتی ہے، بلکہ وسیع تر معاشرتی اور حکومتی ذمہ داریوں کی دیانت داری سے ادائیگی کا اصول بھی بیان کرتی ہے۔ امانت کا مفہوم یہاں اخلاقی، قانونی، اور روحانی ہر سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھی اَنا لَكُم رَسُولٌ أَمِينٌ یعنی میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں کہہ کر متعارف کروایا
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
بے شک میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔
(الشعراء 26107، 125، 143 وغیرہ)
یہ الفاظ نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام کی دعوت میں مشترکہ طور پر استعمال ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ امانت داری نبوت کی بنیادی شرط ہے۔
اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَـٰنَـٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٰعُونَ
اور وہ جو اپنی امانتوں اور وعدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
(المؤمنون 8)
یہ آیت اُن صفات میں شامل ہے جو صلوۃ، خشوع، زکات، اور فحاشی سے اجتناب کے ساتھ بیان کی گئیں، گویا امانت داری عبادت کا حصہ ہے، محض دنیاوی اخلاقیات نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں امانت داری کو ایمانی تقاضا، انبیاء کی صفت، اور معاشرتی عدل کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ جو قومیں اور افراد امانت کو پامال کرتے ہیں، وہ نہ اللہ کے نزدیک معتبر رہتے ہیں، نہ انسانوں کے درمیان باعزت۔ اور جو امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں، ان کا شمار اللہ کے مقرب بندوں میں ہوتا ہے۔