قرآنِ مجید میں احسان یعنی بھلائی، نرمی اور حسن سلوک کو ایک بلند ترین اخلاقی مقام قرار دیا گیا ہے، اور جو لوگ احسان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے محسنین کا لقب استعمال کیا ہے۔ محسنین وہ لوگ ہیں جو نہ صرف عدل کرتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر حسنِ سلوک، درگزر، اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کا عمل صرف ظاہری عبادت نہیں بلکہ دل کی گہرائی سے اللہ کے لیے ہوتا ہے۔
وَأَحْسِنُوا۟ ۛ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
(البقرۃ 195)
اور احسان کیا کرو، بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتا ہے، یعنی جو لوگ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، درگزر کرتے ہیں، اور اپنے فائدے سے زیادہ دوسروں کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں، وہ اللہ کی خاص محبت کے حقدار بن جاتے ہیں۔
إِنَّهُۥۤ مِنْ عِبَادِنَا ٱلْمُؤْمِنِينَ وَدَخَلَ ٱلْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍۢ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ…
( یوسف 22تا 24 میں یوسف علیہ السلام کو محسن قرار دیا گیا)
كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ
(یوسف 22)
ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ یوسف علیہ السلام کو محسن کے لقب سے نواز رہا ہے، کیونکہ انہوں نے قید، فتنہ اور ظلم کے باوجود صبر، عفت اور حکمت سے کام لیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ احسان صرف مالی مدد یا ظاہری بھلائی نہیں، بلکہ ہر حال میں نیکی کا مظاہرہ کرنا ہے۔
نتیجتاً، قرآن مجید کے مطابق محسنین وہ عظیم لوگ ہیں جو انسانوں سے نیکی اور اللہ سے اخلاص کے رشتے پر جیتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں درستی، دل میں تقویٰ، اور عمل میں خیر خواہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں سے اللہ محبت کرتا ہے، ان کو دنیا میں عزت دیتا ہے، اور آخرت میں بہترین اجر کا وعدہ فرماتا ہے۔