قرآنِ مجید نے جنگ میں حاصل شدہ غنیمت کے مال کی تقسیم کا واضح اور عادلانہ اصول مقرر فرمایا ہے، جو اسلامی معاشرت میں عدل اور اجتماعی امانت کے تصور کو مستحکم کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے بھی ہمیشہ اسی قرآنی اصول پر عمل کیا، اور ذاتی خواہش یا قبائلی ترجیح کو کبھی غنیمت کی تقسیم میں دخل نہیں دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَاعْلَمُوٓا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَىْءٍۢ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُۥ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ
اور جان لو کہ جو کچھ تم مالِ غنیمت حاصل کرو، اس کا پانچواں حصہ اللہ، رسول، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔
(الأنفال 41)
اس آیت کی روشنی میں، غنیمت کا پانچواں حصہ (1/5) بیت المال میں جاتا ہے اور شریعت کے مطابق مقررہ مصارف پر خرچ ہوتا ہے۔ باقی چار حصے (4/5) ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے ہیں جنہوں نے جنگ میں عملی حصہ لیا ہو۔
یہ تقسیم کسی شخص، خاندان یا گروہ کی صوابدید پر نہیں، بلکہ وحی کے اصول کے مطابق ہے، تاکہ دولت و طاقت چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے۔
صحابہؓ کے دور میں، اگر کوئی شخص غنیمت سے ذاتی فائدہ لینے کی کوشش کرتا تو اسے غلول (خیانت) قرار دے کر سخت سزا دی جاتی، کیونکہ مالِ غنیمت پوری امت کی امانت ہے، ذاتی وراثت نہیں۔
پس، قرآن کا اصول یہ ہے کہ مالِ غنیمت صرف وہی حاصل کرے گا جس نے اللہ کے دین کے لیے جان و مال سے محنت کی ہو، اور وہ بھی شریعت کی مقررہ تقسیم کے مطابق۔ نہ کسی مخصوص دن، نہ کسی مخصوص خاندان یا جماعت کی ملکیت بن کر۔