قبروں پر چراغاں کرنا نہ صرف سنتِ نبوی ﷺ کے خلاف ہے، بلکہ یہ شرک کا چور دروازہ ہے، کیونکہ اس سے قبروں کی تعظیم و تقدیس کا وہ راستہ کھلتا ہے جو بعد میں شرک تک پہنچا دیتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
“وإيّاكم ومحدثاتِ الأمورِ، فإن كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ.”
“نئے پیدا کردہ کاموں سے بچو، کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(سنن ابو داود، حدیث 4607 – صحیح)
جب عبادت کا ماحول بنایا جائے، جیسے چراغاں، خوشبو، روشنی، تو وہاں دل جھکنے لگتا ہے اور اگر وہ جگہ قبر ہو تو شرک کا آغاز وہیں سے ہو جاتا ہے۔ صحابہؓ، تابعینؒ نے قبروں پر نہ چراغ جلائے، نہ وہاں نورانی محفلیں منعقد کیں۔
دین میں نئے کاموں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
“كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار.”
“ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ (جہنم) میں ہے۔”
(سنن النسائی، حدیث 1578 – صحیح)
“إنَّ شرَّ الأمورِ مُحدثاتُها.”
“یقیناً سب سے بُرے کام دین میں نئی باتیں (بدعتیں) ہیں۔”
(سنن النسائی، حدیث 1578 – صحیح)
توحید کا تقاضا یہ ہے کہ قبر کو قبر ہی رہنے دیا جائے، عبادت کا مقام نہ بنایا جائے۔
قبروں پر چراغاں کرنا شرک کا راستہ ہموار کرنا ہے، جو کہ سنت کے خلاف اور دین میں بدعت ہے۔ اس لیے اس سے بچنا واجب ہے۔ توحید، قبروں کی تعظیم نہیں بلکہ صرف اللہ کی عبادت کا نام ہے۔