قبروں پر عرس منانا، میلاد کی محفلیں کرنا، چراغاں، میلے، نیازیں اور رسومات ادا کرنا شریعت میں جائز نہیں بلکہ یہ بدعت اور بسا اوقات وادیِ شرک میں لے جاتے ہے۔ ان مخصوص اعمال کا نہ قرآن میں ذکر ہے، نہ نبی ﷺ کی سنت میں اس کی کوئی اصل موجود ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ
أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلْخَالِصُ
“خبردار! خالص دین صرف اللہ کے لیے ہے۔”
(سورۃ الزمر: 3)
دین میں جو عبادات اللہ اور رسول ﷺ نے مقرر کی ہیں، وہی قابلِ قبول ہیں۔ عرس منانا دین میں نئی بات (بدعت) ہے۔ مزاروں اور میلوں میں بہت ذیادہ غیر اللہ کی پکار لگائی جاتی ہے جسکے بارے میں فرمایا کہ
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذٗا مِّنَ ٱلظَّٰلِمِينَ
“اور اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو جو نہ تمہیں نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر تم نے ایسا کیا تو ظالموں میں شمار ہو گے۔”
(سورۃ یونس: 106)
قبروں پر جا کر منتیں مانگنا، نذریں چڑھانا، یا “پیر سنو” کہنا، یہ سب شرک ہے۔ نصرانیوں اور ہندوؤں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کو مزار بنایا اور ان کے مزاروں کو عبادت کا مقام بنا دیا۔ اسی طرح مسلم معاشروں میں بھی عرس، دھمال، قوالی، میلاد، اور مزار پر منتیں دین کے نام پر شامل کر لی گئیں۔
نبی ﷺ نے قبروں کو عبادت اور اجتماعات کا مرکز بنانے سے منع کیا۔ عرس منانا، شرعی عبادت نہیں بلکہ بدعت اور گمراہی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“إياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة”
“نئی نئی باتوں سے بچو، ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(سنن ابی داود: 4607)
قبر کو پختہ (پکا) بنانا، اینٹ، سیمنٹ، پتھر یا ماربل سے تعمیر کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت اور تعلیمات کے خلاف ہے، اور صحابہ کرامؓ نے بھی اسے ممنوع قرار دیا۔ دین اسلام میں قبروں کی سادگی، مٹی سے ہم آہنگی، اور دنیا سے بےرغبتی سکھائی گئی ہے۔
نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ:
عن جابر رضي الله عنه قال “نهى رسولُ اللهِ ﷺ أن يُجَصَّصَ القبرُ، وأن يُقعَدَ عليه، وأن يُبنى عليه.”
رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ قبر کو گچ (چونا، پلستر) کیا جائے، اس پر بیٹھا جائے، یا اس پر عمارت (پختہ تعمیر) کی جائے۔
(صحیح مسلم، حدیث 970)
لہذامزار بنانا، قبروں پر عرس منانا، میلاد، قوالیاں اور چراغاں دین کا حصہ نہیں، بلکہ واضح بدعت ہے جو شرک کی سرحدوں کو چھوتی ہے۔ توحید پر قائم رہنے والا مسلمان ان تمام بدعات سے اجتناب کرتا ہے۔