فمن يكفر بالطاغوت ويؤمن بالله – کا عقیدے سے کیا تعلق ہے؟

فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ
پھر جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، تو یقیناً اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔
(البقرة 256)

یہ آیت ایک نہایت گہرا عقیدہ بیان کرتی ہے، جو ایمان کی بنیاد اور توحید کی اصل روح کو واضح کرتی ہے۔ یہاں صرف اللہ پر ایمان لانے کا ذکر نہیں بلکہ اُس سے پہلے طاغوت یعنی ہر جھوٹے معبود، ہر باطل نظام، اور ہر طغیانی قوت اور ہر سرکش کے انکار کو ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان باطل کا انکار اور حق کا اقرار ہے۔

ایمان صرف اللہ کو ماننے کا نام نہیں، بلکہ غیر اللہ کی معبودیت، اطاعت، یا حاکمیت کے ہر تصور کا انکار بھی ضروری ہے۔ اس لیے فمن يكفر بالطاغوت کا مطلب ہے کہ جب تک انسان دل سے ہر طاغوت کو رد نہیں کرتا خواہ وہ بُت ہو، جادو ہو، جابر حکمران ہو یا باطل نظام، باطل کی طرف بلانے والے ماں باپ یا رشتہ دار ہوں یا اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا پیشہ و ملازمت ہو جب تک اسکا انکار نہ کیا جائے تب تک اُس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی دعوت ہمیشہ لا إله سے شروع ہوتی ہے یعنی تمام جھوٹے معبودوں کا انکار پھر اس کے بعد إلا الله یعنی صرف اللہ کا اقرار۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان کو ایک مضبوط کڑے سے تشبیہ دی ہے، جو تبھی تھاما جا سکتا ہے جب انسان طاغوت سے بیزار ہو کر صرف اللہ پر توکل کرے۔ اس کا عقیدے سے تعلق یوں ہے کہ توحید کا مطلب صرف ایک اللہ کو ماننا نہیں، بلکہ اس کے سوا ہر طاغوت کا انکار بھی لازم ہے۔ یہی حقیقی توحید ہے۔ جو دل، زبان اور عمل سے ظاہر ہو۔

الغرض کہ عقیدے میں سب سے پہلا قدم باطل کا انکار ہے، اس کے بعد ہی حق کا اقرار معتبر ہوتا ہے۔ جو شخص طاغوت کو رد نہیں کرتا، وہ درحقیقت ایمان کی جڑ کو ہی مضبوطی سے نہیں تھام پاتا۔ توحید کی حقیقت، تب ہی پوری ہوتی ہے جب انسان اللہ کو ماننے کے ساتھ ہر غیر اللہ کے انکار کا اعلان بھی کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post