اسلام میں فرقے بنانا ہی حرام ہے تو فرقے کے نام پر مسجد بنانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ بلکہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف، تفرقہ پروری کی علامت، اور امت کو تقسیم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد کو صرف اپنی عبادت، توحید، اور وحدتِ امت کے لیے مشروع کیا ہے، نہ کہ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث یا شیعہ و سنی کے جھنڈے لہرانے کے لیے۔ فرمایا کہ
وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا
“اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو”
(سورۃ الجن: 18)
یہ آیت اصول بیان کرتی ہے کہ مساجد صرف اللہ کے لیے خاص ہیں، اس میں کسی شخصیت، مسلک، یا گروہ کی نمائندگی کا تصور بھی باطل ہے۔
فرقہ وارانہ مساجد کی مذمت میں “مسجد ضرار” کا ذکر آیا ہے، جو بظاہر مسجد تھی، لیکن اس کا مقصد مسلمانوں کو توڑنا تھا۔
وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مَسْجِدًۭا ضِرَارًۭا وَكُفْرًۭا وَتَفْرِيقًۭا بَيْنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
“اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے، کفر پھیلانے، اور مومنوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے…”
(سورۃ التوبہ: 107)
یہ آیت فرقہ پرستی کے لیے بنائی گئی مسجد کو رد کرتی ہے، اور اس کی حیثیت کو شر کے اڈے کے طور پر واضح کرتی ہے۔ اگر کوئی مسجد اس بنیاد پر بنے کہ “مسجد مسلک دیوبند”، “مسجد مسلک بریلوی”، “مسجد مسلک اہل حدیث” وغیرہ تو یہ بھی مسجدِ ضرار کے قریب تر ہے، نہ کہ “مسجد للہ”۔
مسجد کا مقصد اللہ کی عبادت، توحید کی اقامت، اور مومنین کو جوڑنا ہے۔ اگر مسجد کا نام، نظام، یا جماعت بندی فرقے کی پہچان بن جائے تو وہ اسلام کے وحدت کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
لہذا دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ یا کسی اور نام پر مسجد بنانا ناجائز ہے، یہ تفرقہ ڈالنے کے مترادف ہے، اور مسجد ضرار جیسی صورت بن سکتی ہے، اصل مسجد وہ ہے جو صرف “اللہ” کے لیے ہو۔ “إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ” “بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں”
(سورۃ الحجرات: 10)
لہٰذا مسجد بھی اسی اخوت کی علامت ہونی چاہیے، نہ کہ فرقے کی دیوار۔