فاتحہ کے لیے مخصوص دن مقرر کرنا کیسا ہے؟

دین میں نہ فاتحہ پڑھنے کا مروجہ انداز ثابت ہے، نہ اس کے لیے کوئی مخصوص دن مقرر کرنا جائز ہے، بلکہ یہ دین میں نیا اضافہ ہے جس کی نہ اللہ نے اجازت دی اور نہ رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دی، لہٰذا یہ بدعت ہے۔ فرمایا

وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ ۖ وَمَا نَهَىٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُوا۟ ۚ
“اور جو کچھ رسول ﷺ تمہیں دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔”
(سورۃ الحشر: 7)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ
“جس نے ہمارے اس (دین) میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 1718)

نبی ﷺ نے نہ کسی میت کے تیسرے، ساتویں یا چالیسویں دن قرآن پڑھنے، فاتحہ خوانی یا اجتماعی ذکر کا حکم دیا۔ اگر نبی ﷺ نے کسی کام کو دین اور باعث ثواب نہیں قرار دیا اور ثابت شدہ عبادت کو کسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں کیا، تو ہمیں بھی ایسا کرنا منع ہے، ورنہ ہم رسول ﷺ کی مخالفت کر رہے ہوں گے۔

“فاتحہ” کی مخصوص مجلس، عام دنوں میں ہوں یا خاص دنوں میں، اجتماعی انداز میں، مخصوص نیت کے ساتھ یہ سب بدعت میں شامل ہیں۔

دین مکمل ہے اور یہی دین کل قیامت کے دن قبول ہونے والا ہے باقی سب خسارہ ہے۔

ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ
آج کے دن تمہار دین تم پر مکمل کر دیا گیا ہے۔ (المائدہ: 3)

وَمَنۡ يَبۡتَغِ غَيۡرَ ٱلۡإِسۡلَٰمِ دِينٗا فَلَن يُقۡبَلَ مِنۡهُۖ وَهُوَ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ

اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے، تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
(آل عمران: 85)

لہذا مروجہ انداز سے فاتحہ پڑھنا، خاص دن مقرر کرنا (تیجہ، دسواں، چالیسواں) یہ سب گمراہی پر گمراہی ہے اور بدعات ہیں۔ قرآن و سنت میں نہ ان کی اجازت ہے نہ ثبوت۔ نبی ﷺ کی سیرت اور صحابہؓ کا عمل توحید اور سنت پر قائم تھا، رسم و رواج پر نہیں۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

اللہ نے “والسابقون الأولون” سے کن لوگوں کی تعریف کی؟اللہ نے “والسابقون الأولون” سے کن لوگوں کی تعریف کی؟

قرآنِ مجید نے جن مومنین کو السّابِقونَ الأوّلون کہا، ان کی ایمان، قربانی، اور دینِ اسلام میں سبقت کے باعث خاص تعریف فرمائی ہے۔ یہ