غیب کسے کہتے ہیں؟

قرآنِ مجید میں غیب سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہوتا ہے، جب تک کہ وہ کسی کو نہ بتا دے۔

عَـٰلِمُ ٱلْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِۦٓ أَحَدًا
وہ غیب کا جاننے والا ہے، اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔
(الجن 26)

غیب کا مفہوم قرآن کی روشنی میں یہی ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواسِ خمسہ سے ماورا ہوں یعنی وہ دیکھ، سن، چکھ، سونگھ یا چھو نہ سکے تو وہ چیز غیب میں شمار ہوتی ہے۔

:حواسِ خمسہ ظاہریہ پانچ ہیں
بصر (دیکھنا)، سمع (سننا)، ذوق (چکھنا)، شم (سونگھنا)۔ لمس (چھونا)

ان حواس کے ذریعے انسان صرف وہی چیزیں جان سکتا ہے جو ظاہر ہوں، جو اس کے قریب، محدود اور موجود ہوں۔

لیکن جو چیز ان پانچوں حواس سے پوشیدہ ہو جیسے فرشتے، جنت، دوزخ، تقدیر، قیامت، دل کا حال، آنے والا کل، ماں کے پیٹ کی تفصیل یہ سب غیب کہلاتے ہیں۔

ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱلْغَيْبِ
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
(البقرہ 3)

:اسی طرح حواسِ خمسہ باطنیہ بھی پانچ ہیں
یہ وہ ادراکات ہیں جو عقل، شعور، حافظہ، وجدان اور ضمیر سے متعلق ہوتے ہیں، جیسے

عقل (فہم و تجزیہ)، خیال (تصور و تخیل)، حافظہ (یادداشت)، وجدان (باطنی شعور)، ضمیر (نیکی بدی کا احساس)

ان باطنی حواس کے ذریعے بھی انسان اندازے یا قیاسات قائم کرتا ہے، مگر یقینی غیب کو جاننا پھر بھی اس کے دائرے سے باہر ہے۔

وَمَا تَشَآءُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًۭا
اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے، مگر وہی جو اللہ چاہے۔ بے شک اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
(الإنسان 30)

یعنی غیب ہر وہ چیز ہے جو حواسِ خمسہ سے چھپی ہو، عقل و وجدان سے ماورا ہو۔ صرف اللہ کے علم میں ہو، اور وہ جب چاہے کسی کو بتائے۔

اسی لیے غیب پر ایمان ایمانِ بالغیب کہلاتا ہے، اور یہی قرآن کی پہلی صفت ہے اہلِ ایمان کی۔

جب غیب کا علم اللہ ہی کے پاس ہے تو بندے کا کام ایمان لانا ہے، جاننا نہیں۔
قرآن میں پانچ غیب کی باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ۝
بےشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش نازل فرماتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ (ماؤں کے) رحموں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا ؟ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مَرے گا ؟ بےشک اللہ خوب جاننے والا بڑا باخبر ہے۔
(لقمان34)

اسی طرح آنے والے واقعات، دلوں کے خیالات، تقدیر کا علم، موت کا وقت، قیامت کا علم، جنت و جہنم کی تفصیل، ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو انسان نہیں جان سکتا۔

انبیاء علیہم السلام کو بھی غیب معلوم نہیں ہوتا، اللہ جو چاہے، جب چاہے، وحی کے ذریعے تھوڑا سا علم دے دیتا ہے

وَلَآ أَقُولُ لَكُمْ عِندِى خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔
(الأنعام 50)

پس، غیب کا علم صرف اللہ کا خاص حق ہے، اور جو اللہ نہ بتائے، اسے کوئی نہیں جان سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

روز قیامت کون کامیاب ہوگا؟ یہود، نصاری،مجوسی یا مسلم؟روز قیامت کون کامیاب ہوگا؟ یہود، نصاری،مجوسی یا مسلم؟

روزِ قیامت کامیابی کا معیار اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان فرما دیا ہے کہ کسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق کامیابی کی ضمانت نہیں

جو اللہ نے حرام کیا ہے اسے حلال کرنا کیسا ہے؟جو اللہ نے حرام کیا ہے اسے حلال کرنا کیسا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں، انہیں حلال کرنا یا ان کو معمولی سمجھنا بہت بڑا گناہ اور کفر کے مترادف ہے۔ قرآن و حدیث میں واضح

نرمی سے بات کرنے کا قرآن میں کیا فائدہ بتایا گیا ہے؟نرمی سے بات کرنے کا قرآن میں کیا فائدہ بتایا گیا ہے؟

قرآنِ کریم میں نرمی سے بات کرنے کو نہایت مؤثر، اخلاقی اور اصلاحی طریقہ قرار دیا گیا ہے۔ نرمی صرف ایک خوبصورتی نہیں بلکہ ایک حکمت بھرا عمل ہے جس