عہد الست سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی ارواح سے عالمِ ارواح میں لیا تھا، جب وہ ابھی دنیا میں نہیں آئے تھے۔ اس عہد کو میثاقِ الست یا عہدِ فطرت بھی کہا جاتا ہے۔
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِيٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ ۖ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا۟ بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا۟ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَـٰفِلِينَ
اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کے نفسوں پر گواہ بنایا (کہا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ سب بولے کیوں نہیں، ہم گواہ ہیں۔ (یہ ہم نے اس لیے کیا) کہ تم قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔
(الاعراف – 166)
یہ عہد انسانی فطرت میں توحید کی گواہی ہے، جس کی بنیاد پر قیامت کے دن کسی کو عذر نہیں ہوگا کہ وہ تو اللہ کو جانتا ہی نہیں تھا۔ تاکہ توحید اور ربوبیت کی گواہی فطرت میں ثبت رہے۔