قرآن مجید کے مطابق عقیدے میں انحراف صرف روحانی نقصان کا باعث نہیں بنتا بلکہ یہ امت کو سیاسی، سماجی اور فکری غلامی کی دلدل میں بھی دھکیل دیتا ہے۔ جب انسان توحید خالص سے ہٹ کر شرک، طاغوت یا غیراللہ کی بندگی اختیار کرتا ہے تو وہ صرف عبادت میں نہیں بلکہ فکر، نظام، سیاست اور معاشرت میں بھی تابع و محکوم بن جاتا ہے۔ یہی عقیدے کی خرابی امت کی ذلت، بکھراؤ، اور استعماری تسلط کی بنیادی وجہ بنتی ہے۔
ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَـٰرَهُمْ وَرُهْبَـٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ ۖ وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓا۟ إِلَـٰهًۭا وَٰحِدًۭا ۖ لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَـٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا، اور (اسی طرح) مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں حکم یہی دیا گیا تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان کے شرک سے پاک ہے۔
(التوبہ 31)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جب عقیدے میں فساد آتا ہے تو انسان فکری طور پر غلام بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اہلِ مذہب کو رب کی حیثیت دے دیتا ہے، یعنی قانون، اقتدار اور فیصلہ سازی کا اختیار اللہ کے بجائے انسانوں کو منتقل کر دیتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں عقیدے کی خرابی سے سیاسی اور سماجی غلامی جنم لیتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے توحید خالص سے ہٹ کر شخصیات، رسوم، یا طاغوتی نظاموں کو بالادست مانا تو ان پر استعمار مسلط ہو گیا۔ یہودیوں نے اپنے علماء کو شریعت کا مالک مانا، عیسائیوں نے کلیسا کو ربوبیت دی، اور مسلمان جب خلافت سے ہٹ کر ملوکیت اور بدعت میں پڑے، تو رفتہ رفتہ وہ غلامی کا شکار ہو گئے۔
عقیدہِ توحید صرف اللہ کی عبادت نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت، قانون، عدل، اقتدار، سیاست، معیشت، سب میں اس کی بالادستی کا اعلان ہے۔ انبیاء نے سب سے پہلے اسی عقیدے کو ٹھیک کیا تاکہ قومیں فکری، روحانی اور سیاسی غلامی سے آزاد ہو سکیں۔ جب یہ عقیدہ ٹوٹتا ہے تو قومیں خود ساختہ بتوں، استعماری ایجنڈوں، اور داخلی بگاڑ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
عقیدے کی غلطی امت کو فکری زوال، سیاسی غلامی، اور سماجی پستی میں دھکیل دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں سب سے پہلی اصلاح ہمیشہ عقیدے کی کی گئی، تاکہ امت کا سر صرف اللہ کے سامنے جھکے، اور وہ ہر قسم کی غلامی سے نجات پا کر ایک باوقار، منظم اور اللہ کی بندہ بن کر زندگی گزارے۔